ایمازون کا جنگل دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے۔جس کو لوگ برساتی جنگل کے نام سے بھی جانتے ہیں۔اسکا رقبہ 25 لاکھ دس ہزار مربہ میل پر واقع ہے۔یہ جنگل 9 مختلف ممالک پر پھیلا ہوا ہے۔ان ممالک کے نام برازیل، کولمبیا،پیرو اور شمالی امریکہ کے مختلف ممالک شامل ہیں۔
اس جنگل کی سب سے حیران کن بات یہ کے ساڑھے پانچ ہزارکروڑ سال پرانا ہے۔ایمازون ایک یونانی لفظ ہے جس کا مطلب لڑاکو عورت کے ہیں۔
کیا آپ نے کبھی غور کیاہے کہ گھاس کا رنگ صرف سبز ہی کیوں ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق گھاس کا سبز رنگ کلوروفل کی وجہ سے ہے۔اس کا تعلق طول موج اور سیلولر اجزا سے بھی ہے جسے آرگنیلز اور فوٹو سنتھیسز کہتے ہیں۔جنہیں پودے سورج کی روشنی سے خوراک بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔کلورو پلاسٹ کہلانے والے چھوٹے آرگنیلز کے اندر کلوروفل کے مالیکیول پھنسے ہوئے ہوتے ہیں۔سائنس، انسانیت اور ثقافت کے ایک آن لائن میوزیم وی ایگزبٹس کے مطابق، کلوروفل کا ایک مالیکیول اپنے مرکز میں
لندن کے مضافات میں کیو کے مقام پر واقع مشہور نباتاتی باغ ’رائل بوٹینیکل گارڈنز‘ میں ایک بہت بڑا کنول کا پودا دریافت ہوا ہے جو گزشتہ 177 برس سے سب کی آنکھوں کے سامنے تھا لیکن کوئی پہچان نہ سکا۔ اس کی جڑیں باغ میں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ عملے کے افراد اسے پودوں کی کوئی نئی قسم سمجھتے رہے لیکن اب ایک طویل سائنسی جائزے کے بعد اس کی شناخت ہو گئی ہے کہ یہ کنول کا پھول ہے۔
کئی کیڑے خود کو شکار سے محفوظ بنانے کے لئے طرح طرح کے حیلے اختیار کرتے ہیں۔ اسی طرح سے بیگ ورم قدرت کی ایک ایسی تخلیق ہے جو لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے اپنے لیے گھر بناتا ہے۔ بیگ ورم کو قدرتی انجینئر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا جو پتوں،
بلوچستان کا ضلع خضدار اپنی رنگا رنگ اور منفرد ثقافت کی وجہ سے ایک خاص رعنائی اور کشش رکھتا ہے۔ یہاں کے لوگ سادہ اور مہمان نواز ہیں۔ ان لوگوں کی مقامی زبان براہوی ہے۔ ویسیتو پورا بلوچستان بے شمار حیرت انگیز اور خوبصورت مقامات
جولائی سے اکتوبر تک ایک بڑا سفید خوشبودار پھول صرف ایک رات کے لیے کھِلتا ہے اور پھر صبح تک مرجھا جاتا ہے۔ یہ ڈریگن پھول ہوتا ہے جس پر ڈریگن پھل لگتا ہے۔ نام کا ڈریگن اور چمڑے جیسی کھردری جلدانسان کو اسے کھانے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
ڈریگن ٹری میں سے خون کی رنگت جیسا سرخ محلول نکلتا ہے جس کی وجہ سے اسے ڈریگن بلد ٹری کہا جاتا ہے۔یمن کا سقطری جزیرہ جو اپنے صدیوں پرانے چھتری کی شکل کے ڈریگن درختوں کی وجہ سے مشہور ہے۔یہاں سے350 کلو میٹر کے فاصلے پر بحیرہ عرب اور
مور ایک خوبصورت اور رنگوں سے بھرپور پرندہ ہے جو ایشیائی اور افریقی ممالک میں پایا جاتا ہے، مور کی نر جنس کے سر پر ایک تاج ہوتا ہے جبکہ بالغ مادہ مورنی اکثر بھورے رنگ کی ہوتی ہے اور مورنی کے بچے، جنہیں موریلا کہا جاتا ہے، اُن کا رنگ زرد یا پیلا ہوتا ہے۔
اگرچہ تحقیق کے بڑھتے ہوئے حجم سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ فطرت کے نزدیک گزارا جانے والا وقت انسانی صحت کو فائدہ دیتا ہے لیکن کچھ مطالعات اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے۔
سکردو سے ہو تے ہوئے کے ٹو اور کنکورڈیا کے راستے میں پڑنے والے آخری گاؤں کا نام اسکولے ہے۔ یہاں کے لوگ اردو سے زیادہ انگریزی زبان سے واقف ہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ کنکورڈیا اور بالتورو جانے والے کوہ پیما انگریزی بولتے ہیں تو بطور گائیڈ اور پورٹر مقامی لوگ انہی کی زبان سیکھ جاتے ہیں۔اس گاؤں کے لوگوں کی روزی کا انحصار کوہ پیماؤں اور مہم جوؤوں پر ہے۔
لائر برڈ یعنی بربطنی مور دنیا کا وہ خوبصورت پرندہ ہے جو کئی آوازیں نکالنے پر عبور رکھتا ہے، آسٹریلیا کے جنگلات میں پایا جانے والا یہ پرندہ باقی پرندوں سے کہیں زیادہ باصلاحیت اور دلچسپ ہے۔ماہرین کے مطابق بربطنی مور اوسطاً 30 سال تک زندہ رہتا ہے۔
ماؤنٹ کیلاش نامی پہاڑ تبت میں واقع ہے اور اس کی اونچائی قریباً 6,638 میٹر ہے۔ یہ دنیا کے اونچے ترین پہاڑوں میں سے قطعی نہیں ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آج تک اسے کسی بھی کوہ پیما نے سر نہیں کیا۔ اس کی وجہ بھی نہایت دلچسپ ہے۔ دراصل اس پہاڑ کی ہندو اور
دنیا بھر میں روشنی کی آلودگی ایک ابھرتا ہوا مسئلہ ہے جس میں سالانہ دو فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 'لائٹ پولوشن‘ سے زمین کے ماحول اور انسانوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ازولاپانی میں پایا جانیوالا پودا ہے۔جس کی فیملی سالوینیاسی ہے۔یہ اپنی پسندیدہ آب و ہوا میں سات دن کے اندر اپنا بائیوماس دوگنا کر جاتاہے۔اس میں نائٹروجن,فاسفورس،امائنوایسڈاور بہت سینیوٹرینٹس پائے جاتے ہیں۔
نیم بکائن کی طرح ایک درخت ہے جو گھنا سایہ رکھتا ہے۔ یہ درخت بکائن کی طرح محض سایہ کی خاطر ہر دلعزیز نہیں ہے بلکہ اس کے فوائد اور بھی ہیں۔ نیم کا پھل بھی بکائن کی طرح ہوتا ہے جس کو نمکولی کہتے ہیں۔ جب یہ پکنے پر آتا ہے تو اس میں قدرے مٹھاس سی آجاتی
دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ادرک کی خوبیوں کے گن گائے جاتے ہیں اور بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ عرب تاجروں کے ذریعے ادرک نے دنیا کا سفر کیا۔ جب ادرک نے یونان کی سرزمین پر قدم رکھا اور یونانی اس کی خوبیوں سے آگاہ ہوئے تو اسے دوا میں استعمال کیا گیا اور یوں یونانی طب کا اہم حصہ بن گیا۔
دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ 8848 میٹر بلند ہے مگر کے ٹو کی نسبت اسے سر کرنا بہت آسان ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کو ہر سال سو سے زیادہ کوہ پیما سر کرتے ہیں جبکہ کے ٹو کو کسی سال ایک بھی کوہ پیما سر نہیں کر پاتا۔دنیا بھر میں 26 ہزار فٹ بلند 14 برفانی چوٹیاں اپنے اپنے خطے کو منفرد اعزاز عطا کرتی ہیں۔ آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلند ان چوٹیوں میں سے پانچ صرف پاکستان کے حصے میں آئی ہیں، عجیب بات تو یہ ہے کہ ان پانچ میں سے چار بلندیاں کنکورڈیا اور کے ٹو کے قریب ترین ہیں۔
سمندری کیکڑے یعنی آکٹپس کے پورے جسم میں اس کے ذہن کے خلیے پائے جاتے ہیں۔ آکٹپس ایک شرارتی اور تجسس والا جانور ہے جس کی صلاحیتیں شاید آپ کو حیران کر دیں۔