تبت،دنیا کی چھت
مشرقی ایشیا کا ایک عظیم سطح مرتفع، جو تبت اور چین کے صوبہ چنگھائی اور کشمیر کے علاقے لداخ تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے ”دنیا کی چھت“ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس سطح مرتفع کی اوسط بلندی 4500 میٹر ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے اونچا سطح مرتفع ہے جس کا رقبہ 25 لاکھ مربع کلو میٹر ہے یعنی ریاست ٹیکساس یا فرانس سے چار گنا زیادہ ہے۔یہ سطح مرتفع 55 ملین سال قبل ہند-آسٹریلوی پرت اور یوریشین پرت کے آپس میں ٹکرانے سے وجود میں آیا اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔
سطح مرتفع تبت کے شمالی اور شمال مغربی علاقے زیادہ سرد اور خشک ہیں اور انتہائی شمال مغربی علاقہ سطح سمندر سے 5 ہزار میٹر (16500 فٹ) بلند ہے جہاں فضا میں سطح سمندر کے مقابلے میں صرف 60 فیصد آکسیجن پائی جاتی ہے اور سال کا اوسط درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جبکہ سردیوں میں درجہ حرارت منفی 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ اس قدر سخت موسم کے باعث اس سطح مرتفع کا انتہائی شمال مغربی علاقہ براعظم ایشیا کا سب سے کم آباد اور انٹارکٹیکا اور شمالی گرین لینڈ کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے کم آباد علاقہ ہے۔
مغربی تبّت کا علاقہ KA-ERH دنیا کا بلند ترین قصبہ خیال کیا جاتا ہے جس کی سطح سمندر سے بلندی 15ہزار فٹ ہے۔ برف سے ڈھکے پہاڑوں اور دنیا کے بلند ترین سطح مرتفع پر مشتمل تبّت سے ایشیا کے بڑے دریا نکل کر چین اور پاک وہند کی طرف آتے ہیں ان میں برہما پترو (بنگلہ دیش) اور دریائے سندھ بھی شامل ہے۔
تبّت کے شمال مشرق میں چین، مشرق میں سکّم، بھوٹان، نیپال اور بھارت جبکہ مغرب میں کشمیر کا ضلع لدّاخ ہے۔ جنوب میں کوہ ہمالیہ ہے۔ تبّت کا کُل رقبہ 12لاکھ 21ہزار 600مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً 20لاکھ ہے جن میں 96فیصد تبتی اور باقی چینی ہیں۔ تبّت کی تجارت پہلے ہندوستان کے ساتھ تھی مگر جب اس پر چین کا قبضہ ہوا تو یہ تجارت بند ہوگئی۔ 1957ء میں چین نے تبّت تک ایک سڑک تعمیر کرلی۔ تبّت کا دارالحکومت لہاسہ (Lhasa)ہے۔ تبّت میں وسیع سبزے کے میدان اور جنگلات بھی ہیں۔ یہاں سینکڑوں جھیلیں اور ندیاں قدرت کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔ چونکہ بارش کم ہوتی ہے اسی لئے کھیتی باڑی صرف دریاؤں کے کناروں پر ہوتی ہے جہاں پھل، جَو اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔ یاک (yalk) یہاں کا پالتو جانور ہے۔
اس وقت پامیر خطے کی کل آبادی ساڑھے 3 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس میں گورنو بدخشاں (تاجکستان) صوبہ بدخشاں افغانستان سمیت چین اور پاکستان کی آبادی بھی شامل ہے۔