باؤلی

انسانی تہذیب کے آغاز سے لے کر اب تک زراعت، روزمرہ استعمال اور دیگر رسمی سرگرمیوں کے لیے پانی کا استعمال ایک عام رواج ہے۔ بنجر پن سے لے کر پانی کی دستیابی تک کے موسمی حالات کے مطابق تہذیبوں نے پانی کے استعمال اور ذخیرہ کرنے میں مختلف تکنیکوں کا استعمال کیا تھا۔ایسی ہی ایک ٹیکنالوجی باؤلی یعنی سیڑھی والے کنووں کی ہے۔ 
باولی/باوڑی کا لفظ سنسکرت کے لفظ واپی یاواپیکا سے ماخوذ ہے۔ باؤلی کا لفظ عام طور پر گجرات، راجستھان اور شمالی بھارت کے کچھ حصوں میں استعمال ہوتا ہے۔ باؤلیوں کے مقامات ان کی اہمیت اور افادیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ بستی کے کنارے واقع سٹیپ ویل یعنی سیڑھی والے کنوئیں جہاں سے لوگ پانی نکال سکتے تھے اور اس مقام کو ٹھنڈے اجتماع کے لیے استعمال کرسکتے تھے۔ تجارتی راستوں کے قریب سیڑھی والے کنووں کو زیادہ تر آرام گاہ سمجھا جاتا تھا۔ 
شیر شاہ سوری نے شاہراہ شیر شاہ سوری (جی ٹی روڈ اور جرنیلی سڑک) اور دیگر مقامات پر کافی باؤلیاں بنوائیں ان میں ہاتھی اور گھوڑے بھی اْتر سکتے تھے بعض باؤلیوں میں زیرِ زمین کئی کلومیٹر خفیہ راستے بھی ملتے ہیں۔جہاں بھی راجپوت اور شیر شاہ سوری کے دور کے قلعے ہیں وہاں یہ باؤلیاں ضرور ملتی ہیں۔
عمومی طور پر تاریخی عمارتوں کے احاطے میں سیڑھیوں والے کنویں ”باولیاں“ (stepwell) ضرور ہوتی تھیں۔ شروع شروع میں تو یہ تعمیری کاموں میں استعمال ہوتی تھیں بعد میں تفریح اور آرام گاہ کے طورپر مستقل موجود رہتی تھیں۔دہلی میں متعدد، لکھنؤ میں ایک، آلہ آباد باندہ روٹ پر کالنجر اور چتر کوٹ، سہسرام، حیدرآباد، بھوپال وغیرہ کی تاریخی عمارتوں میں باولیاں موجود ہیں۔
باؤلی کی دو قسمیں ہیں شمالی باؤلی اور مغربی باؤلی
ابھی پاکستان میں کچھ باولیاں باقی ہیں مثلاً لوسر باؤلی (واہ کینٹ)، ہٹیاں (چھچھ) ضلع اٹک اور قلعہ روہتاس (جہلم) میں۔ یہ ایک بڑا سا کنواں ہوتا ہے جس میں پانی کی سطح تک سیڑھیوں کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔ اس میں ارد گرد راہداریاں اور کمرے بنے ہوتے ہیں جو شدید گرمی میں بھی بہت ٹھنڈے رہتے ہیں۔ امراء وہاں اپنے دفتر کا کام اور آرام کرتے تھے اور یوں تپتی دوپہریں ٹھنڈے پانی کے پہلو میں بیٹھ کر گزار دیتے تھے۔ 
گاؤں شموزئی (تحصیل کاٹلنگ،مردان) کا سیڑھی والا کنواں تقریباً 2300 سال پرانا ہے جس کا تعلق اشوک کے دور سے ہے۔ بلکہ بعض بزرگ 5000 سال کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس قسم کے کنویں بنیادی طور پر ان دیہاتوں، آبادیوں میں واقع ہوتے ہیں جو دامن میں رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس طرح کے دو دیگر کنویں آسام اور کشمیر میں بھی موجود ہیں۔
اس کنویں میں تقریباً 30 گول سیڑھیاں ہیں جن میں سے ہر ایک کی اونچائی 10 – 14 انچ ہے جبکہ اصل کنواں سینکڑوں فٹ گہرا بتایا جاتا ہے۔ گاؤں کے باشندے یا تو پانی سے بھرے گھڑے یا بالٹیاں نسبتاً آلودہ پانی سے براہ راست کنویں سے نکالتے یا پھر وہ پمپ کیے گئے پانی کو گہری سطح پر استعمال کرتے۔کنوایں میں پانی مئی اور جون  کے مہینوں میں نیچے آجاتا ہے اور مون سون پکے دوران یہ اوپر تک آجاتا ہے اور آنے والوں کے لیے کشش کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

Daily Program

Livesteam thumbnail