مصنوعی بارش
ماحولیاتی آلودگی ویسے تو عالمی مسئلہ ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں فضا اس قدر آلودہ ہو چکی ہے کہ لاہور کا گزشتہ کئی ہفتوں سے دنیا بھر میں پہلا نمبر تھا۔ ایسی ہی صورتحال کراچی کی بھی ہے جبکہ دیگر علاقے بالخصوص بڑے شہروں میں سموگ کی وجہ سے متعدد بیماریوں کا شکار ہونا کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اس بارنگراں حکومت پنجاب نے صوبے میں اسموگ کی بگڑتی صورتحال پر قابو پانے کے لئے مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں لاہور کے 10 علاقوں میں بوندا باری ہوئی۔مصنوعی بارش کا اعلان پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے کیا۔انہوں نے کہا کہ پہلی فلائٹ میں 48 فلیئرز فائر کیے گئے، فلیئرز شاہدرہ اور مرید کے کے قریب ہوئے۔لاہور میں جس طیارے کے زریعے مصنوعی بارش برسائی گئی وہ بیچ کرافٹ کنگ ائیر C90 ماڈل ہے۔یہ امریکی ساختہ طیارہ یو اے ای ائیر فورس کی ملکیت ہے۔دو انجن اور چھ نشستوں والا یہ طیارہ 500 کلوگرام وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس طیارے نے لاہور، مریدکے، کالا شاہ کاکو، شرقپور اور شیخوپورہ کی فضاء میں کلاؤڈ سیڈنگ کیلئے اڑان بھری تھی۔ذرائع کے مطابق طیارہ گوجرانوالہ، موڑ ایمن آباد اور کامونکی کی حدود میں بھی کلاؤڈسیڈنگ کرتا رہا۔
مصنوعی بارش برسانے کے بعد لاہور کے ایئر کوالٹی انڈکس میں بہتری آئی اور آلودگی میں لاہور پہلے سے چوتھے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت پنجاب کا مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ قابل ستائش اور باقی صوبوں کے لئے قابل تقلید ہے۔ بہتر ہو گا پنجاب کی طرح دوسرے صوبے بالخصوص سندھ، کراچی میں مصنوعی بارش برسانے کے لئے اقدامات کرے تاکہ شہریوں کے لئے شفاف فضا میں سانس ممکن ہو۔
مصنوعی بارش برسانے کا عمل کافی دلچسپ ہوتاہے جس میں پہلے بادلوں کو کیمیکل کے ذریعے بھاری کیا جاتا ہے۔ مصنوعی بارش کلاوڈ سیڈنگ تکنیک کے ذریعے ہوتی ہے۔ خصوصی ہوائی جہاز کے ذریعہ دو سے چار ہزار فٹ کی بلندی سے بادلوں کے اوپر سوڈیم کلورائیڈ، سلور آئیوڈائیڈ اور دیگر کیمیکل چھڑکے جاتے ہیں۔
ان کیمیکلز کی وجہ سے بادلوں میں برفیلے کرسٹلز بنتے ہیں اور بادل بھاری ہوجاتے ہیں اور برسات ہونے لگتی ہے۔ بادل پر کیمیکل ڈالنے کے لیے ہوائی جہاز کی جگہ زمین سے راکٹ یا مخصوص آلات بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ہر بادل مصنوعی بارش کے لیے موزوں نہیں، ہر موسم میں یہ برسات ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے خاص ماحول درکار ہوتا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دس میں سے تین قسم کے بادلوں میں مصنوعی بارش کا تجربہ کیا جاسکتا ہے۔
ایسے بادلوں کو مصنوعی بارش کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جن کی تہہ سات سے دس ہزار فٹ موٹی ہو۔ مصنوعی بارش کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہوا میں رطوبت یعنی نمی 70 سے 75 فیصد ہو اور ہوا کی رفتار 30 سے 50 کلو میٹر فی گھنٹہ ہو۔
ان سارے عوامل کی موجودگی میں ہی مصنوعی بارش کا تجربہ مکمل طور پر کامیاب ہو سکتا۔ دو امریکی سائنس دانوں ونسنٹ شیفر اور برنارڈ وونیگو نے سن1946 میں پہلی مرتبہ مصنوعی بارش کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے ڈرائی آئس کا استعمال کرکے کامیاب کلاوڈ
سیڈنگ کی تھی۔آج دنیا کے پچاس سے زائد ملکوں میں کلاؤڈ سیڈنگ کے پروگرام چل رہے ہیں۔ امریکا، چین، مالی، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک خشک سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔
مصنوعی بارش جہاں فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں، پہلی بات تو یہ کہ بادلوں کو برسایا تو جا سکتا ہے لیکن وہ اپنی مرضی سے ہی رکیں گے، دوسری بات اس سے ماحول پر غیر فطری دباؤ بڑھ جاتا ہے، شدید حبس اور گرمی بڑھ سکتی ہے، چونکہ اس بارش کے پانی میں کیمیائی مادے شامل ہوتے ہیں اس لیے یہ پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
مصنوعی بارش برسانے کے اس عمل میں بہت سے کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں، جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کیلشیم کلورائیڈ، پوٹاشیم کلورائیڈ، سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ، ایلومینیم آکسائیڈ اور زنک شامل ہیں، تاہم ان میں سب سے زیادہ مہلک سلور آیوڈائیڈ ہے، محققین کہنا ہے کہ مصنوعی بارش سے بہت سے بیماریاں جنم لیتی ہیں، جن میں ایڈز، ملیریا، کینسر جیسے مہلک امراض شامل ہیں۔یہ کیمیکل انسانوں، مچھلیوں اور دیگر جانداروں کے لیے زہر کا درجہ رکھتا ہے.