سموگ
سموگ بنیادی طور پر ایسی فضائی آلودگی کو کہا جاتا ہے جو انسانی آنکھ کی حد نظر کو متاثر کرے۔ سموگ کو زمینی اوزون بھی کہا جاتا ہے۔یہ ایک ایسی بھاری اور سرمئی دھند کی تہہ کی مانند ہوتا ہے جو ہوا میں جم سا جاتا ہے۔ سموگ میں موجود دھوئیں اور دھند کے اس مرکب یا آمیزے میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین جیسے مختلف زہریلے کیمیائی مادے بھی شامل ہوتے ہیں اور پھر فضا میں موجود ہوائی آلودگی اور بخارات کا سورج کی روشنی میں دھند کے ساتھ ملنا سموگ کی وجہ بنتا ہے۔ اس کے علاوہ بارشوں میں کمی، فضلوں کو جلائے جانے، کارخانوں اورگاڑیوں کے دھوئیں اور درختوں کا بے تحاشا کاٹا جانا اور قدرتی ماحول میں بگاڑ پیدا کرنا سموگ کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔
زہریلے دھوئیں گردوغبار اور آلودہ پانی کی آمیزش سے فضا ء میں تحلیل ہونے والی آلودگی کو سموگ کہا جاتا ہے۔سموگ کی عام طور پر دو اقسام ہوتی ہیں، جس میں سلفورس سموگ اور فوٹوکیمیکل سموگ شامل ہیں۔ سلفورس سموگ کو لندن سموگ اور فوٹو کیمیکل کو لاس اینجلس سموگ کہتے ہیں۔دنیا میں پہلی بار سموگ کا لفظ 1950 کی دہائی میں استعمال کیا گیا جب یورپ اور امریکہ کو پہلی با رصنعتی انقلاب کی وجہ سے فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسموگ دو الفاظ دھواں (Smoke) اور دھند (Fog) کے باہمی اشترک سے بنا ہے جو کہ پہلی مرتبہ 1900ء کے اوائل میں لندن میں استعمال ہوا، جہاں دھند اور دھوئیں نے لندن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔ مختلف ذرائع کے مطابق یہ لفظ Dr. Henry Antoine des Voeux نے اپنے مکالے فوگ اینڈ اسموگ (Fog & Smog)میں استعمال کیا۔
سب سے پہلے ہمیں دھند اور سموگ میں فرق معلوم ہونا چاہئے کیونکہ سموگ کی موجودگی اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں جاننے کے بعد ہی ہم اپنے آپ کو اس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ دھند اور سموگ میں بظاہر توکوئی فرق نہیں نظر آتا لیکن دھند اور سموگ دو مختلف نوعیت کی صورتیں ہیں۔ جب ہوا میں موجود بخارات کم درجہ حرارت کی وجہ سے کثیف ہو جاتے ہیں تو یہ ماحول میں سفیدی مائل ایک موٹی اور دبیز تہہ بنا دیتے ہیں جسے دھند کہا جاتا ہے جبکہ اگر اسی دھند میں دھواں اور مختلف زہریلے کیمیائی مادے شامل ہو جائیں تو یہ دھند مزید گہری اور کثیف ہو جاتی ہے جسے سموگ کہتے ہیں۔ سموگ میں موجود فضائی آلودگی انسانی صحت کے لئے بے حد نقصان دہ ہے کیونکہ اس میں بہت سارے خطرناک کیمیائی مادے اور مضر صحت اجزاء موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دھوئیں کی وجہ سے گہرے اور پیلے رنگ کی تہہ آجاتی ہے۔ سورج کے نکلنے کے ساتھ ساتھ نارمل دھند آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، جبکہ سموگ ماحول میں دن بھر ویسے ہی موجود رہتا ہے اور اس ماحول میں سانس لینے سے ایک گھٹن اور آلودگی کا احساس ہوتا ہے جو ہماری صحت کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ افراد فضائی آلودگی کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دراصل سموگ میں بنیادی طور پر ایک پرٹیکولیٹ مادہ موجود ہوتا ہے جو کہ پرٹیکولیٹ مادہ2.5 کہلاتا ہے اور یہ پی ایم 2.5 ایک انسانی بال سے تقریباً چار گنا باریک ہوتا ہے۔ جو انسانی پھیپھڑوں میں بآسانی داخل ہو کر پھیپھڑوں کی مختلف بیماریوں کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے کینسر تک کا باعث بن سکتا ہے۔
سموگ کو بنانے میں دھواں، درجہ حرارت اور بادل سب حصہ دار ہوتے ہیں اور ان میں ایک ایسا کیمیائی تعامل پیدا ہوتا ہے جس کے لئے سال کے درمیان کے مہینے بہت زیادہ سازگار ہوتے ہیں۔ اس موسم میں ہوا کی رفتار بھی آہستہ ہو جاتی ہے اور پھر درجہ حرارت کی وجہ سے دھواں اور دھند مل کر سموگ بناتے ہیں۔ ہوا کی کم رفتار اس سموگ کو حرکت دینے میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہے اور بادلوں کی موجودگی کی وجہ سے ایک دباؤ سا بن جاتا ہے جو کہ اس دھند کو یا دھوئیں کو اوپر کی طرف جانے سے روکتاہے اور پھر یہ سموگ ساکن حالت میں اس جگہ کو گھیر لیتی ہے اور فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہے۔
اگر کسی فرد کو سموگ کی وجہ سے انفیکشن شروع ہو جائے تو سب سے پہلے اس انسان کے گلے میں خراش یا زخم ہوجانے کے ساتھ ساتھ ناک اور آنکھوں میں بھی شدید چبھن یا جلن ہونا شروع ہو جاتی ہے اور جو افراد پہلے سے ہی سانس کی مختلف بیماریوں مثلاً دمہ، پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کے لئے سموگ زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے اور ایسے افراد کے لئے مزید بیماریوں کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
سموگ ایک ایسی میڈیکل ایمر جنسی کا نام ہے جو ہم سب کی صحت کے لئے بے حد نقصان دہ ہے مگر اس سے ہم خود اپنا کردار اداکر کے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اس کے لئے گیس کے مختلف آلات کو استعمال کرنے کے بجائے بجلی کے آلات کا استعمال کرنا چاہئے، خراب گاڑیاں یا ایسی مشینیں جن سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہو، ان کے استعمال کو ترک کر دیں اور گاڑیوں کے استعمال کو کم سے کم کر کے پیدل چلنے کو ترجیح دیں۔ اپنے علاقے میں موجود پودوں اور درختوں کو کاٹنے سے اجتناب کرنا چاہئے اور درختوں میں اضافہ کیا جائے۔اس کے علاوہ گاڑی چلاتے وقت گاڑیوں کی رفتار دھیمی رکھیں اور فوگ لائٹس کا استعمال کریں۔وہ لوگ جو دمے یا سانس کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں انہیں زیادہ رش یا ٹریفک جام والی جگہوں پر جانے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
پاکستان میں موسم سرما یکے ساتھ ایک بار پھر سموگ کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک بار پھر یہ آلودگی سر چڑھ کر بولنے لگی ہے۔ ملک کے بیشتر علاقوں بلخصوص پنجاب میں سموگ کی بڑھتی ہوئی یہ شدت موجودہ حکومت کی غیرسنجیدگی کا پتہ دے رہی ہے۔ دوسری طرف پڑوسی ملک بھارت میں بھی فصلوں کو آگ لگانے سے لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دنیا میں فضائی آلودگی میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔ ملک میں اس بار سموگ بڑھنے کی بڑی وجہ دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں، صنعتوں اور اینٹوں کے بھٹوں کے خلاف،مؤثر اقدامات کا نہ ہونا ہے۔حکومتی ادارے کبھی موسم اور کبھی کسانوں کی جانب سے کٹائی کے بعد فصلوں کو آگ لگانے کا انجام قرار دیتے ہیں۔