پاکستان میں سموگ کا آغاز
پاکستان میں سموگ کے مسئلے نے 2015 میں اس وقت شدت اختیار کی جب موسم سرما کے آغاز سے پہلے لاہور اور پنجاب کے بیشتر حصوں کو شدید دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔پاکستان میں سموگ اکتوبر سے جنوری تک کسی بھی وقت وارد ہو سکتی ہے اور اس کی شدت 10 سے 25 دن تک طویل ہو سکتی ہے اور فوری ریلیف صرف بارش سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سال سموگ کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک میں کمی ہوئی بلکہ کئی پروازیں بھی منسوخ ہوئیں۔
عالمی ادارہِ صحت کے مطابق دنیا میں سالانہ 70 لاکھ افراد کی اموات فضائی آلودگی کے باعث ہوتی ہے۔ دنیا کی 91 فیصد آبادی ان جگہوں پر رہتے ہیں جہاں ہوا کا معیار عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی حدوں سے تجاوز کرتا ہے۔ رواں سال ایئر کوالٹی اور آلودگی کے لحاظ سے پاکستان کے شہر لاہور اور کراچی دنیا کے 25 آلودہ ترین شہروں میں شامل ہوتے ہیں۔
پاکستان میں فوٹو کیمیکل سموگ پائی جاتی ہے۔اس میں وولیٹائل کے باریک ذرات شامل ہوتے ہیں، یہ ذرات مختلف قسم کی گیسوں،مٹی اور پانی کے بخارات سے مل کر بنتے ہیں۔سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ جو کہ صنعتوں گاڑیوں اور کوڑا کرکٹ جلانے سے ہوا میں شامل ہو جاتی ہیں، جب سورج کی کرنیں ان ذرات پر پڑتی ہیں تو سموگ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ سردیوں میں جب ہواکی رفتار کم ہونی شروع ہوتی ہے تو ہوا میں شامل یہ دھواں اور دھند جمنے لگتا ہے اور نتیجہ سموگ کی صورت میں نکلتا ہے۔ سموگ میں ز مینی اوزون سلفر ڈائی آکسائیڈ،نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اورپا رٹیکیولیٹ جیسے عناصر شامل ہوتے ہیں۔یہ خوردبینی ذرات ٹھوس بھی ہو سکتے ہیں اور ما ئع شکل میں بھی موجود ہوتے ہیں جو آکسیجن پر اثرانداز ہو کر سانس لینے کے عمل میں دشواری پیدا کرتے ہیں۔
یونیورسٹی آف شیکاگو کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سموگ کے باعث ہر پاکستانی شہری کی اوسط عمر میں 2.7 سال کی کمی آ رہی ہے، جبکہ لاہور کے ہر شہری کی عمر میں 5.3 سال، فیصل آباد کے شہری میں 4.8 سال اور گوجرانوالہ کے ہر شہری کی عمر میں 4.7 سال کی کمی آ رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ فضائی آلودگی تو ساراسال رہتی ہے تو بھر یہ سموگ نومبر میں ہی کیوں آتی ہے؟
نومبر کے آتے ہی ہوا میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور ہمسایہ ملک سے دھوئیں کے بادلوں کا آنابھی شروع ہو جاتا ہے۔ جب درجہ حرارت کم ہوتا ہے تو یہ ذرات جم جاتے ہیں اور عام زبان میں اس کو سموگ کا سبب خیال کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق انڈیا میں سالانہ بنیادوں پر 4 لاکھ ٹن دھان کی فصل کا منڈھ جلایا جاتا ہے۔ امریکی ادارے ناسا سے لی گئی تصویروں کے مطابق بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں دھان کے منڈھ جلانے کی شرح بہت زیادہ ہے اس دھویں ہی کی وجہ سے حد نگا ہ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ کمی اب صرف لاہور میں ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کا سلسلہ فیصل آباد تک جا پہنچا ہے جبکہ بھارت کے شہر دہلی اور انبالہ بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ سموگ صرف پاکستان اور بھارت میں ہوتی ہے،تاہم دنیا کے دیگر ممالک بھی سموگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ انگلستان،یورپی ممالک اور امریکہ بھی سموگ کی زد میں ہیں مگر یہ ترقی یافتہ ممالک مصنوعی بارش کا بندوبست کرکے اس پر قابو پالیتے ہیں۔ چین میں سموگ کا سلسلہ ایک عرصہ تک چینیوں کے لیے درد سر بنا رہا ہے، مگر انہوں نے بہترین اقدامات کر کے اس پر قابو پالیا ہے، جس کی ایک مثال دنیا میں نصب کیا جانے والا سب سے بڑے ایئر فلٹر کی ہے جو کہ اس وقت چین کے شہر بیجنگ میں نصب ہے۔
کسی شہر یا قصبے کو سموگ گھیر لے تو اس کے اثرات فوری طور پر محسوس ہوتے ہیں۔ سموگ کے زیرِ اثر افراد میں سانس لینے میں دشواری یعنی دمہ،گلے میں خارش، آنکھوں میں جلن، بخار،کھانسی، فلو اور پھیپھڑوں میں انفیکشن جیسی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں۔ سموگ کی معمولی مقدار میں گھومنا بھی دمہ کے مریضوں کیلئے دورے کا خطرہ بڑھانے کیلئے کافی ثابت ہوتی ہے۔سموگ دل اور پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیت کیلئے بھی تباہ کن ہے۔ آلودگی میں معمولی اضافہ بھی ڈیمینشیا کا خطرہ بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ماہرین ِصحت کی جانب سے سموگ کو دماغی صحت کیلئے تباہ کن قرار دیا جاتاہے۔ ماہرین کے مطابق فضا میں آلودہ ذرات کا ایک مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر اضافہ ڈیمینشیا کا خطرہ 16 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ کورونا، ڈینگی اور سموگ کے باعث نفسیاتی مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے۔ اس سے بوڑھے، بچے اور نظام تنفس کے مسائل کے شکار افراد بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ سموگ ناصر ف انسانوں پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ پودوں کی افزائش اور جنگلات بھی اس سے برْی طرح متاثر ہوتے ہیں۔