سیپ میں موتی
موتی انگریزی میں (Pearl) پرل، عربی میں لولو، سنسکرت میں موکنکم، ہندی میں موکتا اور فارسی میں مروارید کہلاتا ہے، اسے درِ دریا بھی کہا جاتا رہا ہے۔موتی اپنی خوش رنگی اور ملائمت کے باعث بہت مقبول ہے۔ خواتین میں اس کا استعمال بہت زیادہ ہے، یہ بیش قیمت اور قدیمی جوہر ہے۔ ہندوستان میں موتیوں کا رواج سب سے پہلے پڑا تھا۔ قدیم مصر میں انہیں بتوں کی نذر کیا جاتا تھا، ایرانی اور یونانی امراء کانوں میں موتیوں کی بالیاں پہنا کرتے تھے۔یہ موتی خشخاش کے دانے سے لے کر کبوترکے انڈے کے برابر تک ہوتا ہے۔ اس کو دیگر پتھروں کی طرح تراشنا نہیں پڑتا، یہ قدرتی چمک دمک رکھتا تھا۔ اس کی متعدد اقسام ہیں۔ اس میں کیلشیئم کاربونیٹ ہوتا ہے اور اس کی ہارڈنس 3 ہوتی ہے۔
موتی کی پیدائش اس صدف کے پیٹ میں ہوتی ہے، صدف کو سیپ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل ایک انتہائی سخت سمندری کیڑا ہوتاہے، اس کے دونوں بازؤں پر کچھوے کی طرح سخت ہڈی کی ڈھال ہوتی ہے، جس کے ذریعہ یہ دوسرے جانوروں سے محفوظ رہتا ہے، پانچ برس میں جوان ہوتا ہے، بارش کے دنوں میں سطح پر آتا ہے۔ یہ ایک خاص طرح کا جالا بن کر مکڑے کی طرح خود کو کسی محفوظ مقام پر اَڑا لیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک جگہ ٹھہرا رہتا ہے، ماہرین نے اسے خوردبین کے ذریعہ دریافت کیا ہے۔
صدف کے تین پرتیں ہوتی ہیں، اوپر والی پرت سخت لچک دار اورسیاہی مائل سبز رنگ کی ہوتی ہے، دوسری پرت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے خانے ہوتے ہیں، جن میں چونا بھرا ہوتا ہے اور کئی طرح کے رنگ پیدا کرنے والے مادے ہوتے ہیں، تیسری پرت پوست در پوست ہوتی ہے اور اس میں طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں، موتی یہیں بنتا ہے۔ اس کی پیدائش کے بارے میں دو طرح کی روایات ہیں، ایک جو ماہرین نے بیان کی ہے اور دوسری وہ جو قدیم جوہریوں نے بیان کی ہیں۔ قدیم روایت کے مطابق نو روز کے اکیسویں دن نیساں کا مہینہ شروع ہوتا ہے، اس مہینے کے بادل ابرِ نیساں اور اس کی بارش آب ِنیساں کہلاتی ہے۔ ابرنیساں جب سمندر پر برستا ہے تو سیپ سطح پر آ کر منہ کھول دیتے ہیں اس طرح آبِ نیساں کے قطرے ان کے منہ میں پڑتے ہیں۔ اب جس قدر بڑا قطرہ صدف کے منہ میں جاتا ہے، اتنا ہی بڑا موتی بنتا ہے لیکن یہ ایک قدیم اور قطعی غلط روایت ہے۔۔ جدید سائنس نے یہ بات کسی اور طرح سے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدف کے اندرکوئی بھی چیز داخل ہو جائے توموتی بن جاتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق صدف میں کوئی بیرونی چیز اتفاق سے داخل ہو جائے مثلا ریت کا ذرہ یا کوئی اور سخت چیز تو کیونکہ اس کی اندرونی ساخت یا جسم جیلی کی طرح نرم ہوتا ہے تو یہ سخت ذرہ اس کے جسم میں اذیت یا Irritation کا باعث بنتا ہے کیڑا اپنے تحفظ کے لیے ایک خاص قسم کا مادہ یا لعاب خارج کرکے اس شئے کے گرد ایک جال سا بننا شروع کر دیتا ہے، تاکہ اس کی چبھن ختم ہو سکے اور یہی لعاب سخت ہو کر موتی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ یہ ہی دراصل موتی بننے کی ابتدا ہوتی ہے۔
موتی کی پیدائش کے مقامات سمندر اور دریا ہیں۔ خلیج فارس، آسٹریلیا، شمالی روس، بحیرہِ قلزم، جاپان، امریکا، فن لینڈ، سویڈن، انڈونیشیا،آبنائے قسطنطنیہ، سری لنکا اور عراق کے سمندر موتیوں کے لیے مشہور ہیں۔
موتی کے لیے غوطہ زنی کو ”صدف گیری“ بھی کہا جاتا ہے، خلیج فارس میں جزیرہ بحرین کے متصل دنیا بھر میں سب سے زیادہ صدف گیری ہوتی ہے۔ سمندروں کے علاوہ دریاؤں سے بھی موتی حاصل ہوتے ہیں جو سمندری موتی کے ہم پلہ ہی ہوتے ہیں، آئرلینڈ، روس اور فرانس کے دریا اس حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، برازیل، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے دریاؤں میں بھی موتی پایا جاتا ہے۔
موتی کی اقسام
کاہل:۔ اس کی رنگت بہت زیادہ سفید ہوتی ہے
سرمئی:۔ اس کی رنگت ہلکی سیاہی مائل ہوتی ہے
جاوام کھاڑی:۔ اس کی رنگت سبز پتے کی مانند ہوتی ہے
میانی:۔ یہ گہرا سیاہی مائل ہوتا ہے
دودھیا:۔ دودھ کی طرح بالکل سفید رنگت
بیضوی:۔ مرغی کے انڈے جیسا
عمانی:۔ عمان کے ساحل سے ملتا ہے
بحرینہ:۔ بحرین کے نزدیک ملتے ہیں
سنگلی:۔ انڈے کی زردی جیسا رنگ
ٹٹگری:۔ اس کا رنگ نیلا ہوتا ہے
ہرمزی:۔ یہ موتی قرمزی ہوتے ہیں
صراحی:۔ اس کی شکل صراحی کی مانند ہوتی ہے
پوربی:۔ اس کو کوڑ بھی کہتے ہیں، انتہائی باریک اور گول
بیھیریں:۔ سیسے کے رنگ کا ہوتاہے
گلابی:۔ یہ موتی انتہائی نادر ہوتا ہے
پتھریں:۔ یہ سلیٹی رنگ کا ہوتا ہے
نیلمی:۔ یہ نیلے رنگ کا ہوتا ہے
زرد:۔ یہ زردی مائل ہوتا ہے
سبز:۔ ہرے رنگ کا ہوتا ہے
کچیا:۔ اس کی رنگت زرد ہوتی ہے
وضع قطع کے لحاظ سے موتی کی دواقسام ہیں
بالکل گول
صراحی نما:۔ اس کو لولوء کہتے ہیں
ساخت کے لحاظ سے یہ دو طرح کا ہوتا ہے، ناسفتہ (بے سوراخ) اور سفتہ (سوراخ دار)۔
برطانوی جوہریوں کے مطابق موتی کی اقسام
گرینڈ پرل:۔ ان کو بڑی مقدار کے پیراگون کہتے ہیں
بیرکوئیز:۔ اس کی شکل بیضوی ہوتی ہے
لٹل پرل:۔ اسے چھوٹا مروارید کہتے ہیں
خورد تخم:۔ اسے خورد تخم مروارید کہتے ہیں
موتی چور:۔ یہ خشخاس کے دانوں کی مانند ہوتے ہیں
موتی کی شناخت
اصلی موتی انتہائی صاف، شفاف اور رنگوں کی حسین لہروں سے سجا ہوتا ہے۔ موتی کی شکل اکثر گول اور ناشپاتی کی طرح ہوتی ہے۔ اصلی موتی قدرتی طور پر چمک دار اور خوب صورتی میں بے مثال ہوتا ہے، نقلی کی نسبت اصلی موتی کا وزن زیادہ ہوتا ہے، اس میں سوراخ انتہائی باریک ہوتا ہے جب کہ نقلی موتی میں سوراخ زیادہ کھلا ہوتا ہے۔ اصلی موتی نمک کے تیزاب، سرکہ اور نوشادر میں میں حل ہو جاتا ہے، اس کارنگ جسم کی بو پسینے اور دھوئیں سے خراب ہو جاتا ہے۔ موتی میں کاربونیٹ آف لائم اورکچھ وہ مادہ، جس سے صدف بنتے ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ خالص موتی تھوڑی حرارت پہنچانے پر بھی کشتہ ہو جاتا ہے۔
موتی کی شناخت بڑے تجربے کا کام ہے کیونکہ ایسے نقلی موتی مارکیٹ میں ملتے ہیں کہ بڑے بڑے تجربہ کار جوہری بھی ان کی شناخت مشکل ہی کر سکتے ہیں۔ قدیم زمانے میں فرانس مصنوعی موتی بنانے میں بڑی شہرت رکھتا تھا، یہ مصنوعی موتی قدرتی اور اصلی موتیوں سے بھی چمک دمک اور آب تاب میں زیادہ ہوتے تھے۔
دنیا بھر میں چوں کہ سچے موتی کی مانگ بہت زیادہ ہے اور بیش تر خواتین اسے پسند کرتی ہیں، اس لیے بہت سے عقل مندوں نے موتی حاصل کرنے کے لیے اصل موتیوں کی فارمنگ شروع کردی ہے، جس میں چین سرفہرست ہے۔ وہ اصل سیپ کی پوری فیملی سمندر میں ایک مخصوص جگہ چھوڑ دیتے ہیں، چوں کہ یہ تمام سیپ سمندر میں زیادہ حرکت نہیں کرتے اور احتیاط کے طور پر وہ ان کے گرد مخصوص دائرے میں جال بھی لگا دیتے ہیں تاکہ سیپ اس جال سے باہر نہ نکل سکیں، پھر مصنوعی طریقے سے ان کی بریڈنگ کی جاتی ہیاور ان کو کچھ عرصے کے لیے سمندر ہی میں پڑا رہنے دیا جاتا ہے تاکہ وہ قدرتی ماحول میں موتی
تیار کریں اور وقت آنے پر آسانی سے اس مخصوص جگہ سے نکالا جا سکے۔ یہ کاروبار بے پناہ ترقی کررہا ہے کیوں کہ اس میں ایک بار سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے، اس لیے بہت سے ممالک میں اس پر بہت زیادہ کام ہورہا ہے۔ یعنی اب فارمی مرغی کی طرح موتی بھی پیدا کئے جا رہے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں صدف کی کالونی کو سمندر میں ایک مخصوص جگہ پالا جاتا ہے اور ان میں نقلی طریقے سے کوء ریت کا ذرہ یا سخت چیز داخل کردی جاتی ہے اور ہر سیپ موتی بنانے لگتی ہے۔ ایک مخصوص عرصہ گزرنے کے بعد غوطہ خور سمندر کی تہہ میں جا کر ان صدف کو سطح آب پر جمع کر کے موتی حاصل کرتے ہیں۔ اس بات کا تعین ہو جائے کہ موتی خالص ہے تو پھر اس کے عیوب کی طرف توجہ بھی دینی چاہیے کیوں کہ اگر کسی موتی میں خالص ہونے کے باوجود کوئی عیب ہوگا تو اس کی قیمت میں کمی واقع ہو جائے گی۔ ماہرین جواہرات نے موتی کی شناخت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مندرجہ ذیل عیب بھی گنوائے ہیں۔