اگرچہ تحقیق کے بڑھتے ہوئے حجم سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ فطرت کے نزدیک گزارا جانے والا وقت انسانی صحت کو فائدہ دیتا ہے لیکن کچھ مطالعات اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے۔
سکردو سے ہو تے ہوئے کے ٹو اور کنکورڈیا کے راستے میں پڑنے والے آخری گاؤں کا نام اسکولے ہے۔ یہاں کے لوگ اردو سے زیادہ انگریزی زبان سے واقف ہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ کنکورڈیا اور بالتورو جانے والے کوہ پیما انگریزی بولتے ہیں تو بطور گائیڈ اور پورٹر مقامی لوگ انہی کی زبان سیکھ جاتے ہیں۔اس گاؤں کے لوگوں کی روزی کا انحصار کوہ پیماؤں اور مہم جوؤوں پر ہے۔
لائر برڈ یعنی بربطنی مور دنیا کا وہ خوبصورت پرندہ ہے جو کئی آوازیں نکالنے پر عبور رکھتا ہے، آسٹریلیا کے جنگلات میں پایا جانے والا یہ پرندہ باقی پرندوں سے کہیں زیادہ باصلاحیت اور دلچسپ ہے۔ماہرین کے مطابق بربطنی مور اوسطاً 30 سال تک زندہ رہتا ہے۔
ماؤنٹ کیلاش نامی پہاڑ تبت میں واقع ہے اور اس کی اونچائی قریباً 6,638 میٹر ہے۔ یہ دنیا کے اونچے ترین پہاڑوں میں سے قطعی نہیں ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آج تک اسے کسی بھی کوہ پیما نے سر نہیں کیا۔ اس کی وجہ بھی نہایت دلچسپ ہے۔ دراصل اس پہاڑ کی ہندو اور
دنیا بھر میں روشنی کی آلودگی ایک ابھرتا ہوا مسئلہ ہے جس میں سالانہ دو فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 'لائٹ پولوشن‘ سے زمین کے ماحول اور انسانوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ازولاپانی میں پایا جانیوالا پودا ہے۔جس کی فیملی سالوینیاسی ہے۔یہ اپنی پسندیدہ آب و ہوا میں سات دن کے اندر اپنا بائیوماس دوگنا کر جاتاہے۔اس میں نائٹروجن,فاسفورس،امائنوایسڈاور بہت سینیوٹرینٹس پائے جاتے ہیں۔
نیم بکائن کی طرح ایک درخت ہے جو گھنا سایہ رکھتا ہے۔ یہ درخت بکائن کی طرح محض سایہ کی خاطر ہر دلعزیز نہیں ہے بلکہ اس کے فوائد اور بھی ہیں۔ نیم کا پھل بھی بکائن کی طرح ہوتا ہے جس کو نمکولی کہتے ہیں۔ جب یہ پکنے پر آتا ہے تو اس میں قدرے مٹھاس سی آجاتی
دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ادرک کی خوبیوں کے گن گائے جاتے ہیں اور بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ عرب تاجروں کے ذریعے ادرک نے دنیا کا سفر کیا۔ جب ادرک نے یونان کی سرزمین پر قدم رکھا اور یونانی اس کی خوبیوں سے آگاہ ہوئے تو اسے دوا میں استعمال کیا گیا اور یوں یونانی طب کا اہم حصہ بن گیا۔
دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ 8848 میٹر بلند ہے مگر کے ٹو کی نسبت اسے سر کرنا بہت آسان ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کو ہر سال سو سے زیادہ کوہ پیما سر کرتے ہیں جبکہ کے ٹو کو کسی سال ایک بھی کوہ پیما سر نہیں کر پاتا۔دنیا بھر میں 26 ہزار فٹ بلند 14 برفانی چوٹیاں اپنے اپنے خطے کو منفرد اعزاز عطا کرتی ہیں۔ آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلند ان چوٹیوں میں سے پانچ صرف پاکستان کے حصے میں آئی ہیں، عجیب بات تو یہ ہے کہ ان پانچ میں سے چار بلندیاں کنکورڈیا اور کے ٹو کے قریب ترین ہیں۔
سمندری کیکڑے یعنی آکٹپس کے پورے جسم میں اس کے ذہن کے خلیے پائے جاتے ہیں۔ آکٹپس ایک شرارتی اور تجسس والا جانور ہے جس کی صلاحیتیں شاید آپ کو حیران کر دیں۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق بعض جانوروں اور پرندوں نے زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے اپنے جسم کے ٹمپریچر کو مطابقت میں رکھنے کے لیے ’ساخت کی تبدیلی‘ کرتے ہوئے دم، چونچیں اور کان بڑے کر لیے ہیں۔
10ستمبر 1994کو آسٹریلیا کے بلیو ماؤنٹین پہاڑی سلسلے کی آبشاروں سے گھرے Wollemi نیشنل پارک میں یہ درخت اتفاقیہ طور دریافت کیا گیا تھا- نیو ساؤتھ ویلز میں واقع پارک کے فیلڈ آفیسر اور پودوں کے شیدائی”ڈیوڈ نوبیل“کو گشت کے دوران ایک مخروطی خدو خال کا درخت نظر آیا جو اس سے پہلے ان کی نظر سے نہیں گزرا تھا- تحقیق کی غرض سے وہ اس درخت کا ایک چھوٹا پودا اپنے ساتھ لے آئے ابتدائی تحقیق سے ثابت ہوا کہ پودے کی نباتاتی خصوصیات درختوں کے قدیم خاندان
عام طور پرڈولفن کی 5 اقسام ہیں جو ندیوں میں رہتی ہیں۔ ان سب میں سب سے مشہور ہے گلابی ڈالفن اسے بوٹو، بوتو یا ایمیزون ندی ڈولفن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان کا سائنسی نام انیا جیوفرینسیس ہے اور وہ انلا جینس سے تعلق رکھتے ہیں جو پلاٹینسٹائڈیا خاندان کے ایک حصے میں ہے۔
پ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ انسان اور جانوردونوں ہی گوشت خور ہوتے ہیں۔ لیکن کیا کبھی یہ سنا ہے کہ درخت بھی گوشت خور ہوتے ہیں۔ ان درختوں یا پودوں کو انگریزی میں Carnivorous Plant بولتے ہیں۔اور یہ اپنے شکار کو کئی دنوں تک آہستہ آہستہ کھاتے ہیں۔ ان پودوں کی خوراک میں چھوٹے جانور جیسے چوہا ' خرگوش وغیرہ اور حشرات داخل ہیں۔بڑے جانوروں کے شکاری درخت بھی افریقہ میں پائے جاتے ہیں جو کہ بہت ہی کم تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اور اکثر انسان ا ن کے پاس سے گزر جاتے ہیں اور ان کو علم نہیں ہوتا کہ یہ درخت گوشت خور ہیں۔
ہمارا معمول دن کے چوبیس گھنٹے گھومتا ہے، تقریبا 12، 12 گھنٹے سورج کی روشنی کے ساتھ، اور باقی گھنٹے رات کا وقت ہوتے ہیں۔ لیکن، کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں ایسی جگہیں ہیں جہاں 70 دن سے زیادہ سورج غروب نہیں ہوتا۔ زمین پر 6 مقامات ہیں جہاں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔
ایک ایسا تکونا پھل جس کے کونے کانٹے کی شکل کے ہوتے ہیں، اس کا پودا تالاب میں پیدا ہوتا ہے، اس کا چھلکا سخت ہوتا ہے، خام ہونے کی صورت میں سبز ہوتا ہے اور پک جانے کے بعد پوست سیاہ ہو جاتا۔