لیٹر بکس کی تاریخ
دنیا کے قدیم ترین ذرائع ابلاغ میں سے ایک ذریعہ خط و کتابت ہے۔ جب انسان نے لکھنا سیکھا تو پیغام رسانی کا ایک نیا باب کھلا۔ ابتدا میں قاصد پیغام لے کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا کرتے تھے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ نظام منظم ہوتا گیا۔ جب خطوط کی تعداد بڑھی، تو ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کے محفوظ اور آسان جمع کرنے کا کوئی طریقہ ہو۔ یہی ضرورت لیٹر بکس یعنی ڈاک کے ڈبے کی ایجاد کا سبب بنی۔لیٹر بکس محض ایک دھاتی ڈبہ نہیں، بلکہ یہ تاریخ، جذبات اور رابطے کی علامت ہے۔ اس نے انسانوں کے درمیان فاصلے مٹائے، دلوں کو جوڑا، اور محبت بھرے الفاظ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا۔ اگرچہ آج کا زمانہ ڈیجیٹل ہے، لیکن لیٹر بکس اب بھی ہمیں اُس دور کی یاد دلاتا ہے جب ایک خط کا انتظار زندگی کے خوبصورت لمحات میں سے ایک ہوتا تھا۔لیٹر بکس دراصل ایک ایسا عوامی باکس ہے جس میں لوگ اپنے خطوط ڈال دیتے ہیں تاکہ بعد میں ڈاکیا انہیں اکٹھا کر کے منزلِ مقصود تک پہنچا دے۔ آج یہ ایک عام سا منظر ہے، مگر اس کے پیچھے ایک دلچسپ اور طویل تاریخ پوشیدہ ہے۔
انیسویں صدی سے پہلے خطوط براہِ راست ڈاک خانے جا کر جمع کرائے جاتے تھے۔ عام لوگ جب خط لکھتے، تو انہیں ڈاک خانے تک جانا پڑتا۔ بعض اوقات قاصد کے ذریعے خط بھجوایا جاتا، جو نہ صرف وقت طلب بلکہ مہنگا عمل بھی تھا۔ 1840 میں برطانیہ میں پہلا ڈاک ٹکٹ ”پینی بلیک“(Penny Black) جاری ہوا، جس کے بعد ڈاک کا نظام تیزی سے منظم ہونا شروع ہوا۔فرانس وہ پہلا ملک تھا جہاں 1849 میں سڑکوں پر عوامی استعمال کے لیے لیٹر بکس نصب کیے گئے۔ یہ ایک بڑاا قدام تھا، کیونکہ اب لوگوں کو اپنے خطوط جمع کرانے کے لیے ڈاک خانے جانے کی ضرورت نہیں رہی۔اس کے ایک سال بعد ہی 1850 میں برطانیہ میں بھی لیٹر بکس متعارف کرائے گئے۔ ان کا پہلا رنگ سبز تھا، بعد میں ان کی پہچان کے طور پر انہیں سرخ رنگ دیا گیا، جو آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں برقرار ہے۔
لیٹر بکس کی سہولت نے عام لوگوں کے لیے خط و کتابت آسان کر دی۔ آہستہ آہستہ یہ نظام پوری دنیا میں پھیل گیا۔ مختلف ممالک نے اپنے موسم، ثقافت اور شہری طرزِ زندگی کے مطابق لیٹر بکس کی مختلف اقسام متعارف کروائے۔یورپ میں گول یا سلنڈر نما لیٹر بکس عام تھے۔امریکہ میں چوکور دھاتی باکس استعمال ہونے لگے۔جاپان میں آج بھی روایتی سرخ باکس استعمال ہوتے ہیں جن پر مخصوص علاقائی کوڈ درج ہوتا ہے۔
برصغیر میں برطانوی دورِ حکومت کے دوران لیٹر بکس کا نظام 1850 کی دہائی میں متعارف ہوا۔ ریلوے اور ڈاک کا نظام چونکہ ایک ساتھ ترقی کر رہے تھے، اس لیے لیٹر بکس زیادہ تر ریلوے اسٹیشنوں، دفاتر اور بازاروں کے قریب لگائے جاتے تھے۔ ان کا رنگ سرخ رکھا گیا تاکہ وہ دور سے نمایاں نظر آئیں۔ 1947میں آزادی کے بعد پاکستان نے اپنا علیحدہ ڈاک نظام (Pakistan Post) قائم کیا۔ 1948 میں کراچی، لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں پہلے پاکستانی لیٹر بکس نصب کیے گئے۔ یہ باکس ابتدائی طور پر برطانوی طرز کے تھے، یعنی گول دھاتی شکل اور سرخ رنگ کے۔ ان پر پاکستان پوسٹ لکھا جاتا اور اوپر قومی نشان یا چاند ستارہ نمایاں ہوتا تھا۔وقت کے ساتھ پاکستانی لیٹر بکس کا ڈیزائن بہتر بنایا گیا۔ بعد میں ان کی چوکور شکل بھی متعارف ہوئی، جو اسکولوں، دفاتر، کالونیوں اور دیہی علاقوں میں عام ہو گئی۔ آج بھی پاکستان کے زیادہ تر شہروں میں یہ سرخ لیٹر بکس اپنی تاریخی شان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ بعض نئے، بعض زنگ آلود مگر اب بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔
بیسویں صدی کے وسط تک لیٹر بکس عوامی زندگی کا لازمی حصہ بن چکے تھے۔ لوگ محبت نامے، نوکری کی درخواستیں، امتحانی فارم، اور یہاں تک کہ تعزیتی پیغامات تک انہی باکسز کے ذریعے بھیجتے تھے۔ ڈاکیا دن میں ایک یا دو بار لیٹر بکس سے خطوط نکالتا اور انہیں ڈاک خانے پہنچاتا تھا۔تاہم، اکیسویں صدی میں جب ای میل، موبائل فون اور سوشل میڈیا نے رابطے کے ذرائع کو تیز تر بنا دیا، تو لیٹر بکس کی اہمیت کم ہوتی گئی۔ آج بہت سے شہروں میں پرانے لیٹر بکس خالی کھڑے نظر آتے ہیں، جیسے وہ ماضی کی یاد بن چکے ہوں۔ مگر اب بھی کچھ لوگ خط لکھنے اور لفافے پوسٹ کرنے کو ایک خوبصورت روایت سمجھتے ہیں۔
کچھ شہروں میں ”اسمارٹ لیٹر بکس“بھی متعارف کرائے جا رہے ہیں، جو جدید نظام کے تحت ڈاک جمع کرتے ہیں اور ٹریکنگ سسٹم سے منسلک ہیں۔ اس کے باوجود وہی سرخ رنگ کا روایتی لیٹر بکس آج بھی پاکستان پوسٹ کی پہچان اور عوامی یادوں کا حصہ ہے۔پاکستانی سرخ لیٹر بکس صرف ایک دھاتی ڈبہ نہیں یہ تاریخ، جذبات اور رابطے کی علامت ہے۔ اس نے نسلوں کو جوڑا، محبتیں پہنچائیں، اور امید کے پیغام لائے۔ آج جب دنیا ڈیجیٹل ہو چکی ہے، تب بھی یہ سرخ باکس ماضی کی اُن خوبصورت یادوں کی نشانی ہے جب ایک خط کا انتظار زندگی کے حسین ترین لمحات میں سے ہوتا تھا۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستانی لیٹر بکس آج بھی قوم کی تہذیبی وراثت اور انسانی احساسات کا خاموش گواہ ہے۔