ہر رات سو مرتبہ کنگھی
اْنیسویں صدی میں لوگ اپنے بال روزانہ نہیں دھوتے تھے، مگر یہ صفائی میں لاپرواہی نہیں تھی بلکہ اُس دور کے علم اور فہم کا نتیجہ تھا۔ اُس وقت سمجھا جاتا تھا کہ بار بار بال دھونا انہیں نقصان پہنچاتا ہے۔ اس خیال کی بنیاد بھی درست تھی، کیونکہ اُس زمانے میں جو صابن استعمال ہوتا تھا، وہ دراصل صابن نہیں بلکہ لائی یعنی کاسٹک سوڈاسے تیار کیا گیا ایک سخت محلول تھا، جو بالوں کے قدرتی تیل کو مکمل طور پر ختم کر دیتا۔ نتیجتاً بال خشک، کمزور اور الجھے ہوئے ہو جاتے۔مرد چونکہ عموماً چھوٹے بال رکھتے تھے، اس لیے وہ اس سختی کو کسی حد تک برداشت کر لیتے، لیکن خواتین کے لیے معاملہ مختلف تھا۔ ان کے بال اکثر کمر تک لمبے ہوتے، اس لیے وہ بار بار دھونے کا خطرہ نہیں مول لے سکتی تھیں۔ ان کے خوبصورت، مضبوط اور چمکدار بالوں کا راز کنگھی کرنے کے روزانہ معمول میں چھپا تھا۔
مشہور کہاوت ہے کہ ”ہر رات سو مرتبہ کنگھی“ یہ محض ایک قصہ نہیں بلکہ اُس زمانے کی روزمرہ حقیقت تھی۔ جانوروں کے بالوں سے بنے برش کو روز صاف کیا جاتا اور اسی سے سر کی جڑوں سے نوک تک کنگھی کی جاتی۔ اس عمل سے قدرتی تیل پورے بالوں میں یکساں طور پر پھیل جاتا اور گردوغبار یا میل کچیل بھی صاف ہو جاتی۔ یوں بال بغیر دھوئے بھی تروتازہ، نرم اور چمکدار رہتے۔کنگھی صرف صفائی کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک خوبصورت روایت بھی تھی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ اُس دور کے لوگ بالوں کو صرف ظاہری حسن کے طور پر نہیں بلکہ ایک قدرتی نعمت اور ذمہ داری کے طور پر دیکھتے تھے۔
اعلیٰ طبقے میں بال حسن، صحت اور حیثیت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ وکٹورین دور کے پیچیدہ اور نفیس ہیئر اسٹائل، لمبی چوٹیاں اور جھولتی ہوئی لٹیں نہ صرف فیشن کا حصہ تھے بلکہ بالوں کو ٹوٹ پھوٹ اور گرد سے محفوظ رکھنے کا طریقہ بھی۔ بالوں کو گھنا اور بھرپور دکھانے کے لیے خواتین ریٹس استعمال کرتی تھیں، جو پرانے بالوں یا اون سے بنائے جاتے تھے۔
یوں، بغیر بار بار دھونے کے بھی، خواتین اپنے بالوں کو صاف، مضبوط اور دلکش رکھتی تھیں۔یہ لاپرواہی نہیں بلکہ صبر، مہارت اور سمجھ بوجھ سے کی جانے والی نگہداشت تھی۔یہ ایک ایسا فن تھا جو بالوں کو خزانے کی طرح سنبھالے رکھتا اور ان کی قدرتی چمک کو برقرار رکھتا تھا۔