بے جا لاڈ پیار بچوں کے لئے نقصان دہ!
کہتے ہیں کہ بچے تو سبھی کو عز یز ہو تے ہیں۔ ماں با پ ا پنے بچوں کی ہرخوا ہش پوری کرتے ہیں۔جبکہ کچھ فر ما ئشیں ایسی ہوتی ہیں جن کا پورا نہ کیا جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔کیو نکہ ضرورت اور خواہش میں فر ق ہوتا ہے۔ضر ورت پوری ہونا لازمی ہے جبکہ خواہش کے بِنا گزارا ہو سکتا ہے۔ بچوں کے بے جا ناز نخرے اْٹھانے سے بھی بچوں میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی ا یک شخص بر نارڈ سمو ئیل تھا جو ا نتہائی امیر تھا۔مگر اس کی اولاد نہیں تھی۔بہت ہی منتوں کے بعد آخر اسکے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ اْس ا میر شخص کے خا ندان میں یہ پہلا بیٹا تھا،باقی سبھی بیٹیاں ہی تھیں۔
بیٹے کا نام موسیٰ رکھا گیا،بچپن سے اس کے ناز اٹھائے گئے،وہ جو فر ما ئش کرتا،فوراً پوری کی جا تی۔اْس بچے کو غصے بہت آتا تھا،جسے چاہتا مارتا پیٹتا،کسی کی کیا مجال ہوتی کہ چوں بھی کرے۔موسیٰ تھوڑا بڑا ہوا، تو ایک اْستا د پڑھا نے کے لئے گھر آتے لیکن موسیٰ پر کنٹرول کون کرتا۔وہ کبھی ایک جگہ بیٹھتا ہی نہیں تھا۔ اْستا د اتنے لاڈ سے پڑ ھاتے اور اتنے نرم انداز میں کہتے، بیٹا تھوڑا سا پڑھ لو،مگرموسیٰ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی۔
ایک مہینہ اسی طرح گزر گیا تنخواہ لیتے وقت ماسٹر صاحب نے بڑی ہمت کرکے بر نارڈ سمو ئیل سے کہا:
جناب ا بھی تک موسیٰ قابو میں نہیں آ رہے،سمجھ میں نہیں آرہا،کیا کروں؟
سمو ئیل صاحب نے استاد کی بات کو اہمیت نہ د یتے ہوئے زور سے قہقہہ مارااور کہا:
ماسٹر صاحب آپ گیدڑوں کو پڑھاتے آئے ہیں،میرے شیر کو قابو میں کریں توآپ کی صلاحیتو ں کا پتہ چلے۔
ماسٹر صاحب پر یشان ہو کر واپس چلے گئے۔کچھ عرصے بعد موسیٰ کو شہر کے بہترین اسکول میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی،لیکن وہاں بھی بات نہ بن سکی۔
باپ نے بیٹے کی کبھی کوئی خواہش رد نہ کی اور ماں سمجھتی تھی کہ یہ تو میرا شہزادہ ہے۔یہ تو کبھی کوئی غلط کام کر ہی سکتا۔ ان کا خیال تھا کہ وقت ہمیشہ ایک سارہے گااوراسی طرح عیش وعشرت کرتے ہوئے ساری زندگی گزرجائے گی۔کچھ سالوں بعد ایسا ہواکہ سمو ئیل صاحب کو ہا رٹ ا ٹیک ہوا اور وہ چل بسے۔جائیداد کے سا رے معاملات چچا،تایا دیکھنے لگے۔ موسیٰ اور اْس کی ماں کو ہر مہینے بس تھوڑی سی رقم ملتی۔ موسیٰ جیسے لاڈلے اور کھلے ہاتھ خرچ کرنے والے کے لیے وہ پیسے کافی نہیں تھے۔
اب ماں کو بھی کچھ احساس ہوا کہ تر بیت میں کمی رہ گئی ہے لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چْگ گئی کھیت۔ بیٹا تو کوئی بات سنتا ہی نہیں۔روز ایک نیا جھگڑا،ایک نئی مصیبت کھڑی ہوتی،جو بچہ بچپن سے ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیتا تھا،وہ جوانی میں کسی کی بات کیوں سنتا۔یہ ایک ایسے بچے کی کہانی ہے،جو اپنے والدین کے لاڈ پیار سے غیر ذمہ دارانہ رویے کا ما لک بن چکا تھا۔ وہ بچہ بہت ذہین تھا،اس کے ماسٹر نے اس کی ماں کو ایک مرتبہ بتایا تھا کہ وہ اچھے موڈ میں ہوتا ہے،تو منٹوں میں سبق یاد کرلیتا ہے۔اسے یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ کیا کرنا چاہیے اور کیسے کرنا چاہیے۔وہ شاید اس لیے غصے میں رہتا ہے کہ وہ کسی کو اپنے سے برتر نہیں سمجھتا تھا۔ماسٹر کی یہ بات کافی حد تک صحیح تھی،بے انتہا لاڈپیار میں پالے جانے والے بچے عام طور پربگڑے ہوتے ہیں۔اور مو سیٰ بھی ایک ایسا ہی شخص بن چکا تھا اور اب سد ھار ممکن نہیں تھا۔بچوں کی بے جا خواہشات بھی پوری کی جا سکتی ہیں لیکن حد قائم کرنا ضروری ہے۔روک ٹوک کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے۔والدین جس طرح چاہیں بچوں کو موڑ سکتے ہیں۔اس سلسلے میں سماجی ماہرین دو نظریات رکھتے ہیں۔
ایک نظر یہ یہ ہے کہ بچے کا ذہن ایک صاف سلیٹ کی طرح ہوتا ہے۔والدین اور ماحول اس پر جو چاہیں عبارت تحریر کردیں۔دوسرا نظریہ ہے کہ بچے کے ذہن پر کچھ چیزیں وراثت کے طور پر موجود ہوتی ہیں،لیکن ان دونوں نظریات کے باوجود یہ بات پھر بھی اہم ہے کہ معاشرہ بچے کی پرورش میں بہت نمایاں کردار ادا کرتا ہے اور ماں باپ معاشرے کا اہم جزوہوتے ہیں۔
بچوں کی پرورش کے سلسلے میں والدین کے امیروغریب ہونے سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔بعض غریب والدین بھی اپنی ضرورتیں چھوڑکر اپنے بچوں کی خواہشات اور اکثر غیر ضروری خواہشات پوری کردیتے ہیں۔بعض والدین بچوں کو بڑے ہونے تک اپنی صحیح معاشی صورتحال نہیں بتاتے،حالانکہ وقت کا تقاضہ ہے کہ بچوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے لیے انہیں اپنے والدین کی معاشی صورتحال کا علم ہونا چاہیے۔البتہ اس معاملے میں غریب والدین کو بچوں کو اعتماد میں لینے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ننھے بچے کوہر بات بتائی جائے،لیکن یہ ضروری ہے کہ بچوں کو اپنی حد کا اندازہ ضرور ہو۔تاکہ بچے اس کے عادی بن جائیں۔بچوں کی پرورش میں چند پہلو بہت اہم ہیں،مثلاً صلہ یا سزا یعنی اچھا کام کریں،تو اس کا صلہ ضرور ملنا چاہیے۔صلہ ہی آگے چل کر اچھی باتیں اور اچھے کاموں کا حوصلہ دیتا ہے۔اسی طرح غلطی کی سزا بھی ضروری ہے۔اگر سزانہ ملے،تو اکثر غلطی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔شرم دلانا بھی ایک طرح کی سزا ہی کہی جا سکتی ہے۔بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ شرم دلانا،یا مذاق اڑانا قبائلی معاشروں کا رواج ہے۔محبت کا معاملہ تو یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد سے غیر مشروط محبت کرتے ہیں،لیکن اس کے ساتھ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ اولاد کو کنٹرول کیا جائے۔سختی اگر بچے میں ضد،اعتماد کی کمی اور ایسے ہی بہت سے مسائل پیدا کرسکتی ہے،تو ضرورت سے زیادہ صلہ اور پیار بھی بچے کی تخلیقی صلاحیتوں پر ْبرااثر ڈال سکتاہے۔سب کے سامنے ڈانٹ دینا،شرمندہ کرنا،بچوں کے لیے بے عزتی کا باعث ہوتا ہے،لہٰذا بچپن میں پیش آنے والے اس قسم کے سارے واقعات بچوں کو آئندہ زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔بچوں کے ابتدائی سال ہر لحاظ سے بہت اہم ہیں۔یہاں تک کہا جاتا ہے کہ بچوں کی عادت واطوار اس عرصے میں بنیاد پکڑ لیتے ہیں۔
ماں باپ اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ بہت زیادہ لاڈپیار بچے کی تخلیقی اور ذہنی صلاحیتوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ہر معاملہ میں میانہ روی زندگی میں بہتری پیدا کرتی ہے۔اگر وقت پر بچوں کو کنٹرول کر لیا جائے تو بہتر ہوتا ہے ورنہ سا ری زندگی والدین کے پا س صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں کا بھی مستقبل بر باد ہو جا تا ہے جس طرح بیان کر دہ کہانی میں موسیٰ کے ساتھ ہوا۔اس لئے والدین کو چا ہیے کہ بچوں کی بے جا فر ما ئش اور خواہش پوری نہ کر یں بلکہ میانہ روی سیکھائیں۔