پوپ فرانسس (محبت، عاجزی،امن اور انسانیت کا پیکر)

جارج ماریو برگوگلیو 17دسمبر1936کو بیونس آئرس،ارجینٹینا میں ایک اطالوی نژاد خاندان میں پیدا ہوئے۔اْن کے والد ماریو برگوگلیو ریلوے ملازم اور والدہ ریجینا گھریلو خاتون تھیں۔وہ پانچ بہن بھائیوں میں سے بڑے تھے۔ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے کیمیکل ٹیکنالوجی میں ڈگری حاصل کی۔مگر جلد ہی دنیاوی کیریئر کو چھوڑ کر مذہبی خدمت کا راستہ اختیار کر لیا۔ اور 1958ء میں جیزوٹ جماعت (Society of Jesus) میں شامل ہوئے۔1969ء میں کاہن بنے اور اپنی زندگی کو ایمان، خدمت اور عاجزی کے لیے وقف کر دیا۔انھوں نے اپنی کاہنانہ زندگی کا آغاز اْن گلیوں سے کیا جہاں غربت اور دْکھ بسا کرتے تھے۔انہوں نے اپنے علاقے کے غریبوں، مزدوروں اور بے سہارا لوگوں کی خدمت کو عبادت کا درجہ دیا۔
1998ء میں وہ بیونس آئرس کے آرچ بشپ مقرر ہوئے جہاں انہوں نے سادہ زندگی گزاری۔اپنا  کھانا خودپکاتے، عام بسوں میں سفر کرتے اور غریب محلوں کے لوگوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ 2001ء میں مقدس پوپ جان پال دوم نے انہیں کارڈینل مخصوص کیا۔یہ وہ وقت تھا جب برگوگلیو عالمی چرچ کے ایک نمایاں مگر عاجز اور خاموش رہنما کے طور پر جانے جانے لگے۔انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ چرچ صرف عبادت گاہ نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کا مرکزہونا چاہیے۔
28 فروری 2013ء کو پوپ بیناڈکٹ کے استعفیٰ کے بعد 13 مارچ 2013ء کو برگوگلیو کو نیا پوپ منتخب کیا گیا۔ 13 مارچ 2013ء سے لے کر اپنی وفات تک رومن کیتھولک چرچ کے روحانی پیشوا اور ویٹیکن سٹی کے سربراہ رہے۔
وہ تاریخ کے پہلے لاطینی امریکی اور پہلے جیزوٹ (Jesuit) پوپ تھے، جنہوں نے دنیا کو سادگی، عاجزی اور انسان دوستی کا عملی پیغام دیا۔پوپ بنتے ہی ا نھوں نے اپنے لئے نیا نام فرانسس چنا جو 13ویں صدی کے مقدس فرانسس آف اسیسی کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔ جو فطرت سے محبت کے علمبردار تھے۔وہ ایک صدی سے زائد عرصے کے بعد 2013 میں وہ پہلے پوپ بنے جنھوں نے اپنے 95 برس کے پیشرو پوپ بینیڈکٹ کی وفات کے بعد اْن کی آخری رسومات ادا کیں۔
پوپ فرانسس نے خود کو ایک ایسے اْمیدوار کے طور پر پیش کیا جو پْرانی اور نئی دونوں طرح کی سوچ رکھنے والوں کو قابل قبول ہو۔ اپنے انتخاب کے فوراً بعد ہی پوپ فرانسس نے ظاہر کر دیا تھا کہ وہ چیزیں مختلف طریقے سے کریں گے۔ انھوں نے کارڈینلز کا استقبال غیر رسمی طور پر کھڑے ہو کر کیا۔ عمومی طور پر پوپ اپنے تخت پر بیٹھ کر کارڈینلز کا استقبال کرتے ہیں۔وہ شان و شوکت کے بجائے عاجزی کو ترجیح دینے کے لیے پْرعزم تھے۔ انھوں نے پوپ کی لیموزین کے بجائے دیگر کارڈینلز کو لے جانے والی بس میں سفر کرنے پر اصرار کیا۔
پوپ فرانسس کا انتخاب تاریخ کا وہ لمحہ تھا جب رومن کیتھولک چرچ نے پہلی بار جنوبی امریکہ سے کسی رہنما کو اپنا سربراہ بنایا۔پوپ فرانسس نے چرچ کو ایک نیا تصور دیا۔انہوں نے مذہب کو صرف عقیدہ نہیں بلکہ محبت اور خدمت کا عمل قرار دیا۔
ان کے اہم انسائیکلیکل خطوط دنیا بھر میں اثر انداز ہوئے۔انھوں نے چرچ کی توجہ طاقت اور ظاہری شان سے ہٹا کر محبت، شفقت اور خدمت کی طرف موڑی۔
انہوں نے اپنی انسائیکلیکل (Papal Letters) میں کئی اہم موضوعات پر روشنی ڈالی:
1۔Laudato Si(2015) زمین اور ماحول کی حفاظت پر زور
2۔Amoris Laetitia (2016) خاندان، ازدواجی زندگی اور محبت کی روحانی اہمیت پر تعلیمات
3۔Fratelli Tutti (2020) بھائی چارے، سماجی انصاف اور عالمی امن کی دعوت
وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ چرچ کو دیواروں کے اندر نہیں، گلیوں میں جانا چاہیے۔ ہم ایک زخمی مگر خدمت گزار چرچ چاہتے ہیں۔
پوپ فرانسس نے ویٹیکن کی شاہانہ رہائش گاہ چھوڑ کر عام کاہنوں کے لیے بنائے گئے Casa Santa Marta میں رہنا پسند کیا۔
وہ عام گاڑی استعمال کرتے، خود فون کالز کرتے، قیدیوں سے ملاقات کرتے، بے گھر افراد کو گلے لگاتے نیز انہوں نے مسلمانوں، یہودیوں، ہندوؤں اور لادین افراد کے ساتھ مکالمہ اور انسانیت کی بنیاد پر تعلقات قائم کیے۔
2017ء میں مشہور کار ساز کمپنی Lamborghiنے پوپ فرانسس کو ایک خصوصی سفید اور سنہری Lamborghini Huracán بطور تحفہ پیش کی۔یہ دنیا کی چند مہنگی ترین کاروں میں سے ایک تھی لیکن پوپ فرانسس نے اْسے اپنے استعمال کے لیے رکھنے کی بجائے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے گاڑی کو نیلام کر کے حاصل ہونے والی تمام رقم غریبوں، پناہ گزینوں اور جنگ زدہ خاندانوں کی مدد کے لیے عطیہ کر دی۔یہ رقم خاص طور پر شام اور عراق میں متاثرہ مسیحی و مسلم خاندانوں کی بحالی کے منصوبوں میں استعمال کی گئی۔یہ عمل پوپ فرانسس کے اُس عزم کی روشن مثال تھا جو وہ ہمیشہ دہراتے تھے:کہ ”ہمیں دولت سے نہیں، دل سے جینا چاہیے۔ انسانیت کی خدمت ہی اصل دولت ہے“۔
اْن کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو اْن کی نرمی، سچائی اور انسان دوستی تھا۔انہوں نے دنیا کے کئی ممالک کے دورے کیے خاص طور پر جنگ زدہ علاقوں جیسے عراق، سوڈان، فلسطین، شام اور یوکرین کے لیے امن کے پیغامات دیے۔
اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی پوپ فرانس نے بیماری کے باوجود عوامی ملاقاتیں اور مذہبی خدمات جاری رکھیں۔14 فروری 2025 کوپوپ فرانسس روم کے جمیلی ہسپتال میں داخل ہوئے۔اْن کی طبی صورتحال خراب ہوتی گئی اور ڈاکٹروں نے  18 فروری کو ڈبل نمونیا کی تشخیص کی۔38 دن ہسپتال میں رہنے کے بعد، پوپ فرانسس ویٹیکن مقدسہ مارتھا میں واقع اپنی رہائش گاہ پر واپس آئے۔ذرائع کے مطابق1957میں،پوپ فرانسس نے اپنے آبائی علاقے ارجنٹائن میں اپنے پھیپھڑوں کے ایک حصے کو نکالنے کے لیے سرجری کروائی جو سانس کے شدید انفیکشن سے متاثر ہوا تھا۔جیسے جیسے اْن کی عمر بڑھی، پوپ فرانسس کو اکثر سانس کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ انفلوئنزا اور پھیپھڑوں کی سوزش کی وجہ سے اپریل 2025ء کے آغاز میں ان کی طبی حالت دوبارہ خراب ہوئی اور 21 اپریل 2025ء کو 88برس کی عمر میں خداوند نے انہیں ابدی زندگی کیلئے اپنے پاس بْلا لیا۔ویٹیکن کے مطابق، اْن کی وفات فالج اور دل کے دورے کے باعث ہوئی۔اْن کی آخری رسومات 27اپریل 2025کوسینٹ پیٹرز با سیلکامیں ادا کی گئیں۔
پوپ فرانسس کے جنارے کی رسومات کے بعد اْن کے جسدِ خاکی کو اْن کی آخری خواہش کے مطابق سینٹ میری میجر باسیلکا میں دفن کیا گیا۔
 پوپ فرانسس کی زندگی ایک عہد کی کہانی کے ساتھ ساتھ روشنی کی ایک مشعل ہے جو بتاتی ہے کہ سچی قیادت تخت یا تلوار سے نہیں بلکہ دل کی نرمی، عاجزی، اور خدمتِ خلق سے ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ ایمان صرف الفاظ نہیں بلکہ عمل، محبت اور خدمت کا نام ہے۔انہوں نے مذہب کو انسانیت کے قریب کیا  اور بتایا کہ محبت ہی وہ زبان ہے جو سب کو جوڑتی ہے۔ہم سب خدا کے بچے ہیں، چاہے ہمارے عقائد مختلف کیوں نہ ہوں۔
وہ دنیا کو سمجھا گئے کہ قیادت طاقت نہیں، خدمت ہے۔ایمان صرف عبادت نہیں، بلکہ محبت کا عمل ہے۔ مذہب انسانوں کے بیچ دیوار نہیں بلکہ پْل ہے۔یہ کائنات خدا کی امانت ہے، جس کا احترام ہر انسان پر لازم ہے۔وہ دنیا کے لیے امن، بھائی چارے، ماحول کے تحفظ اور انصاف کی علامت بن گئے۔پوپ فرانسس کہتے تھے کہ خدا کے بندے وہی ہیں جو دوسروں سے پیار کرتے ہیں اور جنہیں سب لوگ محبت کرتے ہیں۔یقینا وہ خدا کے ہی بندے تھے جو سبھی سے رنگ ونسل او ر مذاہب سے بالاتر ہو کر محبت کرتے رہے۔
اْن کا کردار، اْن کی دْعا اور اْن کا پیغام آج بھی دنیا کے ہر انسان کے لیے ایمان، اْمید اورمحبت کا سرچشمہ ہے۔ اْن کی سادہ مسکراہٹ، نرم لہجہ اور انسان دوستی کی خوشبو ہمیشہ دنیا کے دلوں میں زندہ رہے گی۔ پوپ فرانسس کی زندگی ایک ایسی شمع تھی جو بجھ کر بھی روشنی چھوڑ گئی۔