خاموشی میں حکمت
کہتے ہیں کہ کسی جگہ پر بادشاہ نے تین بے گناہ افراد کو سزائے موت کا حکم سْنایا۔بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں کو پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا جہاں ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ تھا۔ جس کے ساتھ پتھروں سے بنا ایک مینار اور مینار پر ایک بہت بڑا بھاری پتھر مضبوط رسے کے ساتھ بندھا ہوا ایک چرخے پر جھول رہا تھا۔ رسے کو ایک طرف سے کھینچ کر جب چھوڑا جاتا تھا تو دوسری طرف بندھا ہوا پتھرا زور سے نیچے گرتا اور نیچے آنے والی کسی بھی چیز کو کچل کر رکھ دیتا تھا۔ چنانچہ ان تینوں کو اس موت کے تختے کے ساتھ کھڑا کیا گیا۔
پہلے شخص کو اس تختہ پر عین پتھر گرنے کے مقام پر لٹکایا گیا اور اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا میرا خْدا پر پختہ یقین ہے وہی موت دے گا اور زندگی بخشے گا، بس اس کے سوا کچھ نہیں کہنا۔
اس کے بعد رسے کو جیسے ہی کھولا تو پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور اس شخص کے سر کے اوپر آکر رک گیا، یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے اور پختہ یقین کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی اور رسہ واپس کھینچ لیا گیا۔
اس کے بعد دوسرے کی باری تھی اس کو بھی تختہ دار پر لٹا کر جب آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا میں حق اور سچ کا نمائندہ ہوں اور جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے، یہاں بھی انصاف ہوگا۔
اس کے بعد رسے کو دوبارہ کھولا گیا پھر پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور اس بار بھی اس دوسرے شخص کے سر پر پہنچ کر رک گیا، پھانسی دینے والے اس انصاف سے حیران رہ گئے اور دوسرے کی جان بھی بچ گئی۔
اس کے بعد تیسرے کی باری تھی اسے جب تختے پر لٹا کر آخری خواہش کا پوچھا گیا تو وہ کہنے لگا پہلے کو نہ ہی خْدا پر یقین نے بچایا اور نہ ہی دوسرے کو اْس کے حق و انصاف کے نمائندہ ہونے نے۔
دراصل میں نے غور سے دیکھا ہے کہ رسے پر ایک جگہ گانٹھ ہے جو چرخی کے اوپر گھومنے میں رکاوٹ کی وجہ بنتی ہے جس سے رسہ پورا کھلتا نہیں اور پتھر پورا نیچے نہیں گرتا۔
تیسرے کی بات سن کر سب نے رسے کو بغور دیکھا تو وہاں واقعی گانٹھ تھی، انہوں نے جب وہ گانٹھ کھول کر رسہ آزاد کیا تو پتھر پوری قوت سے نیچے گرا اور اس تیسرے کا سر کچل کر رکھ دیا۔
حکایت کا نتیجہ:
بعض اوقات بہت کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش رہنا حکمت میں شمار ہوتا ہے۔