52واں عالمی یومِ ابلاغیات
52واں عالمی یومِ ابلاغیات دھوم دھام سے منایا گیا
صحافیوں نے پوپ فرانسس کے پیغام کو دل و جان سے سراہا
جھوٹی خبریں اورصحافت برائے امن
رابطہ منزل لاہور میں ہفتہ 12مئی 2018کو 52ویں عالمی یومِ ابلاغیات کے حوالے سے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔جس میں 70سے زائد صحافیوں،میڈیا پروفیشنلز، نوجونواں،اساتذہ اور مذہبی تربیت گاہوں کے طلبا و طالبات نے شرکت کی۔
اس کانفرنس کا موضوع ”جھوٹی خبریں اورصحافت برائے امن“ تھا جوکہ پاپائے اعظم فرانسس نے 52ویں عالمی یومِ ابلاغیات کے خصوصی پیغام پر مبنی تھا۔ اس کانفرنس کی صدارت فضیلت مآب آرچ بشپ سبسٹین فرانسس شاء نے فرمائی۔ جبکہ مہمانِ خصوصی ریورنڈ فادر فرانسس ندیم کیپوچن برادری کے سردارِاعلٰی تھے اور خصوصی مقررین فادر قیصر فیروز، سعود بٹ،ہائسنتھ پیٹر، صاحبزادہ، محمد عاصم مخدوم اور فرزند علی،سینئر صحافی تھے۔
فضیلت مآب آرچ بشپ سبسٹین فرانسس شاء نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن بڑی خوشی کا دن ہے کہ صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد اور ہمارے مخلص بہن بھائی ہمارے ساتھ ہیں۔انہوں نے کہا کہ صحافت اک مشن ہے اور سچائی کو پھیلانا ہی اس مشن کی اصل معراج ہے۔نیز انہوں نے زبان،آنکھوں ا ور کانوں کی روحانیت سچائی کی جستجو اور سچ کے فروغ کو گردانا۔نہوں نے کہا کہ ہم بحثیت انسان ایک چلتا پھرتا میڈیا ہیں۔ اگر ہم اپنے اندر امن پیدا کریں گے تو ہر طرف امن ہی امن ہو گا جس کی اِس وقت ہمارے معاشرے کو اشد ضرورت ہے۔گر ہم صلح کی خبر سنانے کی ٹھان لیں تو یقیناً ہر طرف خاموشی ہو گی اور پھر کوئی جھوٹی خبر اپنا سر بلند نہ کر پائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ افواہوں کی بجائے سچائی کی تلاش کریں اور کسی کی بھی کردار کْشی،احساسات اور عزتِ نفس کو مجروع کرنے والے پیغامات کو پھیلانے سے روکیں۔اپنے خطاب کے اختتا م پر انہوں نے کہا کہ صحافی اپنی خدمت کے ذریعے امن کا وسیلہ بنیں۔
ارم عمران نے حرفِ آغاز میں رابطہ منزل کے ڈائریکٹر ریورنڈ فادرقیصر فیروز،ریڈیو ویریتاس ایشیا اْردوسروس کی ٹیم اور ویو سٹوڈیو کے سٹاف کی جانب سے شرکا کو خوش آمدید کہا اور بتایا کہ یہ کانفرنس کیتھولک نقیب،ینگ جرنلسٹ فارم اور ینگ کرسچین جرنلسٹ یونین کے تعاون سے منعقد کیا گیا ہے اور اس کا مقصد صحافت کی عظمت کو نئے سرے سے دریافت کرنا ہے۔تاکہ ہم ملکر یہ سوچ سکیں کہ بطور میڈیا پروفیشنل صحافت کے ذ ریعے امن کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے۔
یورنڈ فادر فرانسس ندیم(کیپوچن برادری کے سردارِاعلی) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تمام صحافیوں کو مبارکباد پیش کی کہ وہ ایک مشکل خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔خبر بنانا اور نشر کرنا آسان کام نہیں ہے۔اکثر اوقات صحافیوں کو سچی خبر کی بنا پر نفرت او رجبر کا سامنا
بھی کرنا پڑتا ہے۔ تاہم یہ قدیم زمانہ ہی سے مشن رہا ہے اور پوپ فرانسس نے ہماری توجہ ایک مرتبہ پھر سے اس جانب مبذول کروائی ہے کہ اس مادہ پرست دور میں ہمیں سچائی کیساتھ صحافت کی خدمات سر انجام دینی چاہیے۔۔انہوں نے کہا کہ جھوٹی خبر کولائیک اور شئیر کرنے والا بھی اْتنا ہی ذمہ دار ہے،جتنا جھوٹی خبر بنانے والا۔سوشل میڈیا پر قابو رکھیں اور سچ اور جھوٹ کی پہچان کرنے والے بنیں۔انہوں نے صحافیوں کی خدمت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اس بات کی دعوت دی کہ وہ صحافت کے ذریعے امن اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیں۔
فادر قیصر فیروزنے سلائیڈ ز کے ذریعے پوپ فرانسس کا پیغام بڑی خوبصورتی سے پیش کیا اور بتایا کہ پوپ فرانسس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ڈیجیٹل دنیا میں جھوٹی خبروں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔اس لیے مشترکہ طور پر صحافت کی عظمت کو نئے سرے سے دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز فادر موصوف نے بتایا کہ دنیا کی پہلی جھوٹی خبر شیطان نے پھیلائی تھی جب اْس نے حوا سے کہا کہ ”تم ہرگزنہ مرو گے“ پھر اْس نے دوسراجھوٹ بولا کہ ”تمھاری آنکھیں کھل جائیں گی“ اور تیسرا جھوٹ جو شیطان نے بولا وہ یہ تھاکہ ”تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاو گے“ (تکوین5:3) انہوں نے کہا کہ خدا نے انسان کو اچھائی بانٹنے اور ارد گرد کی دنیا کے تجربات کو بیان کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے اور انسان دنیا میں بگاڑ پھیلانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے اب چناو ہم پر منحصر ہے کہ ہم کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ پاپائے اعظم کے پیغام کے آخری نقطے کو بیان کرتے ہوئے فادر موصوف نے کہا پوپ فرانسس صحافیوں کو خبروں کے محافظ قرار دیتے ہیں۔ اس لیے سچائی کی بھاری ذمہ داری اْنہی کے کندھوں پر ہے کیونکہ سچائی ہی ہے جو شراکت،اتحاد اور اچھائی کو فروغ دیتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آج کل کی دنیا میں صحافت کو محض ایک نوکری نہیں بلکہ ایک مشن سمجھ کر پوراکیا جائے۔
سید فرزند علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب غلط خبر کی ترسیل کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ اسے ایک ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔انہوں نے پوپ فرانسس کے ان الفاظ کی تائید کی صحافت ایک مشن ہے۔اور مزید یہ کہا جب صرف پرنٹ میڈیا تھا تو اْس وقت جھوٹی خبروں کی تعداد محض 2فیصد تھی اور اب جس قدر میڈیا میں تیزی آتی جارہی ہے اْسی قدر جھوٹی خبریں پروان چڑھتی جا رہی ہیں۔ اب صحافت آہستہ آہستہ انڈسٹری بنتی جا رہی ہے۔
جناب ہائسنتھ پیٹر نے اپنے خطاب میں خبر کے تاریخی پسِ منظر کو بیان کیا اورکہا کہ خبر دینا یا خبر پہنچانا الٰہی اور پیغمبرانہ مشن ہے۔اور اگر اس مشن میں سچائی نہیں تو یہ اپنے پیشے سے غداری اور بے ایمانی کا مرتکب ہوتا ہے۔نیز انہوں نے کہا کہ لائیک اور کمنٹس کے چکروں میں ہم صیحح سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔اور یہ رجحان معاشرے پر نہایت منفی اثرات مرتب کر رہاہے۔انہوں نے پیلی صحافت کی تاریخ بھی بیان کی۔آخر میں انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں ہمیں کوئی بھی خبر دینے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ ثقافت ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے اس لیے آج جو ہم بوئیں گے وہی کل کو کاٹیں گے۔اس لیے ایسے عناصر کا محاسبہ کریں جو دشمنی اور بد امنی کو پھیلاتے ہیں اور ہر طرف امن کے بیج بوئیں۔
مولانا محمد عاصم مخدوم نے کہا کہ صحافت اصحائف انبیاء سے ماخوذ ہے۔اس لیے صحافت کے لیے سب سے پہلی اور لازمی شرط ایمانداری ہے۔اکژ اوقات الفاظ اور اندازِ بیان واقع کی اصل روح کو کوئی اور ہی رنگ دے دیتا ہے جس سے معاشرے میں خوف وحراس اور جنگ وجدل کی کیفیت پیدا ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔اختتام پر انہوں نے کہا کہ آئیے اس مجلس میں یہ عہد کریں کہ ہم کبھی بھی جھوٹی خبر نہیں پھیلائیں گے۔
چوہدری شفیق گجر نے صحافت کو جہاد قرار دیا اور کہا کہ جہاد ہمیشہ سچائی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور سچائی کو کوئی ما ت نہیں۔ اس لیے سچائی کا پرچار کریں اور جھوٹی خبریں جو معاشرے میں سنسنی پھیلائیں انہیں نہ نشر کیا جائے تو بہتر ہے۔
اس کانفرنس میں امن اور اْمید کے عنوان سے ایک خوبصورت اور معنی خیز ویڈیو بھی دیکھائی گئی۔ یہ ویڈیو سگنس ورلڈ مقابلہ میں پہلا انعام جیت چکی ہے۔ اس کانفرنس میں میزبانی کے فرائض عامر سہیل نے ادا کیے۔