سمو اور مست توکلی

مست توکلی 19ویں صدی کا ایک بلوچ صوفی شاعر اور ریفارمسٹ تھا۔مست کو بلوچی ادب کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ عظیم شاعر سوسائٹی کے ان طبقات کی بات کرتا ہے جو سراسر محرومی کی زندگی گزارتے ہیں۔مست توکلی انگریز راج کا بھی شدید مخالف تھا۔ نو آبادیاتی نظام کا یہ مخالف اپنی شاعری میں نو آبادیاتی نطام کی قباحتوں کو اپنا موضوع بناتا ہے۔اسے اس بات پر خراج ِتحسین پیش کیاجاتا ہے کہ اس نے آپسی بھائی چارے، امن،برداشت اور عالمگیر محبت کی بات کی ہے۔
مست توکلی نے بلوچستان کے علاقے کوہلو میں کاہان کے قریب منک بند میں غالباً 1825 میں جنم لیا۔مست توکلی تقریباً28سال کی عمر میں ایک شادی شدہ خاتوں سمو سے ملا۔ سمو کی شادی مری قبیلے کی”پروئی“شاخ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص”بیورغ“سے ہوئی تھی۔ریوڑ چراتے ہوئے شدید طوفان نے اسے آ گھیرا۔ اور وہ طوفان سے بچنے کے لیے پناہ گاہ تلاش کرنے لگا۔ قریب ہی اسے ایک گھر نظر آیا۔اس نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔دروازہ گھر کی مالکن سمو نے کھولا۔کہا جاتا ہے کہ مست توکلی سمو کو دیکھتے ہی ہوش کھو بیٹھا اور دل ہار گیا۔
اس واقعہ کے بعد اس نے اپنی ساری زندگی بغیر کسی ٹھکانے کے ادھر اْدھر گھومنے  والے شخص کی طرح گزاری۔اسی دوران اس نے شاعری شروع کر دی۔اس نے عظیم یونانی شاعر”ہومر“ کی طرح اپنی شاعری کو گیتوں کی شکل میں گانا شروع کر دیا۔سمو کو دیکھنے کے بعد پہلے پہلے اس نے معمول بنا لیا کہ وہ اپنے ریوڑ کو سمو کے گھر کے قریب لا کر چھوڑ دیتا اور خود سمو کے دروازے پر نظریں گاڑ دیتا کہ شاید سمو کسی وقت دروازے پر آئے اور اسے دیدار کی نعمت نصیب ہو۔سمو کے گاؤں والوں کو مست کا یہ انداز پسند نہ آیا اور انھوں نے اسے سختی سے وہاں نہ آنے کی تلقین کی۔
مست توکلی پر اس تلقین کا کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ وہ دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔توکلی کے رویے سے تنگ آ کر سمو کے خاوند نے سمو کو ساتھ لیا اور وہ گھر اور گاؤں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر کہیں چلا گیا۔سمو کے منظر نامے سے غائب ہونے پر مست توکلی کی زندگی اندھیر ہو گئی۔اس کی زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ رہا۔شروع میں اس نے قریہ قریہ گھومنا اور گانا شروع کیا اور پھر ایک درگاہ کے احاطے میں قیام پذیر ہو گیا۔ یہاں اس نے شاعری کے ذریعے معاشرے کو سدھارنے کی طرف توجہ دی۔اسی حالت میں سمو کی محبت سے بلند ہو کر خالق سے لو لگا لی۔کہتا ہے۔ہم تو پہاڑوں کے رہنے والے کاہان کے مری تھے،میرے رتبے کی بات نہ کرو۔میں نے خدا کو حاصل کر لیا ہے،سمو تو بس ایک بہانہ بنی۔
مست کے کلام میں دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مست نے اپنے زمانے میں پائی جانے والی ہر خوبصورت چیز کوسمو کے سراپا سے تشبیح دیتے ہوئے سمو کو حسینوں کا سرتاج قرار دیا ہے۔مست نے ایک طرف تو سمو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کر دیا تو دوسری جانب بلوچی زبان و ادب کو الفاظ و تراکیب،استعارات و تشبیحات کا عظیم سرمایا عطا کیا۔بالکل ویسے ہی جیسے عظیم سرائیکی شاعر خواجہ غلام فرید ؒ نے اپنی کافیوں کے ذریعے”سرائیکی“اور“روہی ”کو دوام بخشا۔ فرق صرف یہ ہے کہ مست کے ہاں حُسن کے تمام جلوے سمو میں مقید ہیں جبکہ خواجہ فرید روہی کو حسن و لطافت کے اعزازات بخش کر سرائیکی زبان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر رہے ہیں۔وہاں روہی روح میں بسی ہوئی ہے اور یہاں سمو اپنے حُسن وجمال کی رنگینیاں اور راعنائیاں بکھیر کر مست اور بلوچی شاعری کو لا فانی بنا گئی۔
مست توکلی 1892میں 67سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا،لیکن اپنے اشعار اور نغموں سے بلوچی ادب کو مالا مال کر گیا۔

Daily Program

Livesteam thumbnail