ہاتھ سے بنی گڑیا
ایک وقت تھا جب امی، دادی بچوں کو کپڑے کی گڑیا بنا کر دیا کرتی تھیں جس سے چھوٹی بچیاں بہت شوق سے کھیلا کرتی تھیں۔ گڑیا سے کھیلنا لڑکیوں میں زیادہ مقبول کھیل ہے۔ کیونکہ یہ مشابہت میں بلکل ننھی بچیوں جیسی ہوتی ہیں۔آج بھی ننھی پریوں کا من پسند کھلونا گڑیا ہی ہے۔ گڑیا بنانے کی ابتداء کپڑے سے ہوئی۔ یہ ایک خاص فن تھا جس کے ذریعے ڈھانچہ سلائی کر کے اس میں روئی بھری جاتی۔ پھر اس کے سر پر کالے رنگ کے کپڑے کا استعمال بال بنانے کے لیے کیا جاتا۔ہاتھ کی کڑھائی کے ذریعے اس کی آنکھیں اورہونٹ نمایاں کیے جاتے۔ اس گڑیا کو نہ صرف اہتمام کے ساتھ بنایا جاتا تھا بلکہ ان کے لیے چھوٹے چھوٹے چمکیلے موتی ستاروں سے مزین کپڑے بھی تیار کیا جاتے جنھیں پہن کر یہ گڑیائیں مزید پر کشش دکھائی دیتی تھیں۔ اکثر ہماری نانی اور دادی بتایا کرتی تھیں کہ وہ بھی اپنے بچپن میں سہیلیوں کے ہمراہ کپڑے کی گڑیاؤں سے کھیلا کرتیں، ان کے بال سنوارتی، انھیں سجاتی، ان کے کپڑے بناتی۔ اس کے علاوہ کپڑے کے گڈے بھی بنائے جاتے تھے۔ پھر گڈے گڑیا کی شادی کا کھیل کھیلا جاتا۔سہیلیاں دو گروپ میں تقسیم ہو جاتیں۔ یعنی ایک گروپ گڈے کے ہمراہ لڑکے والے کہلاتے تو دوسرا گروپ گڑیا کے ہمراہ لڑکی والے کہلاتے تھے۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس عمل کا تعلق بچوں کے اس غور و فکر سے جڑا ہے جو وہ بڑوں کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ آج بھی آپ غور کریں تو بچے زیادہ تر وہی کام کھیل کھیل میں کرتے ہیں جو وہ اپنی آنکھوں سے عام دنوں میں بڑوں کو کرتا ہوا دیکھ رہے ہوں۔ اْس زمانے میں بھی بچے شادی بیاہ کی رسومات سے لطف اندوز ہو نے کے بعداس تمام منظر کو کھیل کھیل میں دہرانے کی غرض سے گڈے گڑیا کی آپس میں شادی کا کھیل کھیلتے۔ جس کی تیاری کئی دنوں پہلے شروع ہو جاتی۔ بچے ہاتھوں سے سوئی دھاگہ کے ذریعے گڑیا اور گڈے کے چھوٹے چھوٹے کپڑے بناتے۔ چونکہ اس دور میں بچیوں کو ان کے بچپن سے ہی سلائی، کڑھائی سکھانا شروع کر دیا جاتا لہذا بچیاں آسانی کیساتھ گڑیا کے لیے موتی، ستاروں کے کام سے مزین سرخ لباس تیار کر لیتی تھیں۔ شادی کا دن آتا تو لڑکے والے اپنے گڈے کے ہمراہ بارات لاتے۔ لڑکی والے یعنی گڑیا کی طرف کی سہیلیاں بارات کا استقبال کرتیں، کھانے کے لیے حلوہ بنایا جاتا۔ لیکن عموما رخصتی کے وقت جب گڈے کی طرف کی سہیلیاں یہ تقاضا کرتیں کہ اب اپنی گڑیا ہمارے گڈے کے ساتھ رخصت کر دو یعنی ہمیں دے دو تو اس بات پر گڑیا والے انکار کر دیتے اور یوں بچیاں ایک دوسرے سے ناراض ہو جاتیں۔ لیکن یہ ناراضگی بھی کچھ دنوں کے لیے رہتی۔ اس کے بعد دوبارہ یہ سہیلیاں آپس میں گھل مل جاتیں۔
پھر آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیااور کپڑے کی گڑیا کی جگہ باربی ڈول نے لے لی۔ چونکہ مشین سے بنی یہ گڑیا زیادہ نفاست و نزاکت کیساتھ بنی ہوتی ہے لہذا اس نے ننھی بچیوں میں جگہ جلدی بنا لی۔ باربی ڈول پر بننے والے کارٹون اور اینیمیٹڈ مویز نے اسے دنیا بھر میں مقبول کیا۔ اب جس بچی نے یہ کارٹون ایک بار دیکھ لیے وہ یہ گڑیا خریدنے کی خوہش کرنے لگ جاتی ہے۔
پاکستان میں ہاتھ سے بنی گڑیوں سے کھیلنے کا شوق تو اب تقریباً ختم ہو چکا ہے مگرآج بھی کچھ لوگ اس ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کو اپنا ذریعہ معاش بنایا ہے۔ ہاتھ سے بنی یہ خوبصورت گڑیاں پاکستان کے تمام صوبوں کے ثقافتی لباس اور زیورات سے سجی ہوتیں ہیں۔ ان کے پہناوے مختلف صوبوں کی نہ صرف پہچان دیتے ہیں بلکہ وہاں کے رسم و رواج کا پتہ بھی دیتے ہیں جیسے کہ ٹوپی والا برقع پہنے ہوئے گڑیا صوبہ خیبر پختونخوا کی پردے کی رسم دکھاتی ہے تو سندھی ٹوپی پہنے گڑیا سندھ کی ثقافت سے روشناس کراتی ہے۔
باربی ڈول اور اس طرح کی جدید،خوبصورت اور منفرد نظر آنے والی گڑیاوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کے سامنے ڈر اس بات کاہے کہ یہ خوبصورت ثقافتی ورثہ وقت کی نذر نہ ہوجائے۔
Daily Program
