میہڑ کی مہندی
مہندی وہ نازک خوشبو ہے جو خوابوں کی طرح ہتھیلی پر اترتی ہے اور محبت کے رنگ میں رچ بس جاتی ہے۔یہ محض ایک پودا نہیں، بلکہ شادیوں، تہواروں اور خوشیوں کی صدیوں پر محیط ایک داستان ہے۔جب کوئی لڑکی بیاہی جاتی ہے، تو مہندی اس کی خوشیوں کی ساتھی بن کر ساتھ چلتی ہے۔ دلہن کے ہاتھوں میں گہری رنگت مہندی کی سچائی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ رسموں میں، دعاؤں میں، گیتوں میں، ہر جگہ مہندی کی خوشبو رچی بسی رہتی ہے۔ہتھیلی پر بنی باریک لکیریں، انگلیوں کی پوروں پر سجے پھول، اور کلائی پر جھلملاتا سرخ رنگ، یہ سب مہندی کے سچے لمس کی کہانی کہتے ہیں۔
مہندی دراصل ایک پودے کی پتیوں کو پیس کر حاصل ہونے والا پاؤڈر ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس پودے کا سب سے قدیم استعمال تقریباً 9000 سال قبل مصر کے فرعونوں کے زمانے میں ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم مصری تہذیب کی آخری حکمران ملکہ کلیوپٹرا مہندی سے اپنے جسم کو آراستہ کرتی تھی۔ مصری لوگ ممیوں کے ناخنوں پر بھی مہندی لگا کر انہیں دفن کرتے تھے۔کہتے ہیں کہ مہندی کا اصل مسکن شمالی افریقہ تھا، مگر یہ خوشبو دار پودا صدیوں کے سفر میں کئی سرزمینوں کی مٹی میں رچ بس گیا۔ آج دنیا کے مختلف خطوں میں مہندی کاشت کی جاتی ہے، لیکن اگر خالص رنگ، منفرد خوشبو اور دیرپا نقوش کی بات ہو، تو سندھ کے ضلع دادو کے شہر میہڑ کی مہندی کا کوئی ثانی نہیں۔
یہ کہانی ہے سندھ کے ضلع دادو کے شہر ’میہڑ‘ کی مہندی کی، جو دنیا بھر میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ اس کی خوشبو، رنگت اور معیار نے سرحدوں کی قید سے آزاد ہو کر اسے دنیا بھر میں مقبول بنا دیا ہے۔ چاہے دبئی کی گلیاں ہوں، لندن کے بیوٹی اسٹوڈیوز، نیویارک کی شادیاں یا دہلی کے روایتی بازار، ہر جگہ ’میہڑ‘ کی مہندی کی مانگ ہے۔
یہ شہر 1848 میں ایک ہندو خاتون ”میہڑ‘‘کے نام پر آباد کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں مہندی کا پہلا پودا تقریباً ایک صدی بعد لگایا گیا، مگر پھر یہ ایسا بار آور ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ”میہڑ“ مہندی کی دنیا کا ایک بڑا نام بن گیا۔کہا جاتا ہے کہ میہڑ کی مہندی کا بیج قیامِ پاکستان کے بعد بھارت کے علاقے فریدآباد سے لایا گیا تھا اور لوگوں نے یہاں اپنی زمین میں اس کی کاشت کی اور قدرت نے مہربان ہو کر اس بیج کو شہرتِ دوام بخشی اور آج دنیا بھر میں میہڑ کی مہندی کی دھوم ہے۔
”سپنا مہندی‘‘کے نام سے مشہور فیکٹری کے مالک عبدالجبار، جن کے گھرانے نے مہندی کو صرف ایک پودے سے بڑھا کر ایک عالمی پہچان بنانے میں اہم کردار ادا کیا، کہتے ہیں کہ 1948 میں بٹوارے کے بعد ان کے چچا کو میہڑ میں کسی نے مہندی کا پودا لا کر دیا اور مہندی کے بارے میں بتایا۔ یوں انہوں نے میہڑ کی زمین میں پہلی بار مہندی کا پودا لگایا۔لیکن کچھ لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی میہڑ میں مہندی کی فصل ہوتی تھی، جو آج بھی جاری ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی میہڑ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ہزاروں ایکڑ زمین پر مہندی کاشت کی جاتی تھی۔ تقسیم سے قبل میہڑ کے ہندو زمیندار مہندی کی کاشت کرتے تھے، جبکہ مہندی کی دکانیں بھی زیادہ تر ہندو تاجروں اور دکانداروں کی ملکیت تھیں۔
یہاں کے زرخیز کھیتوں میں اْگنے والی مہندی نہ صرف مقامی روایت کا حصہ ہے، بلکہ اپنی اعلیٰ کوالٹی کے باعث سرحدوں کو پار کرتی ہوئی بھارت، ایران، مصر اور خلیجی ممالک سے لے کر یورپ اور شمالی امریکا تک پہنچ چکی ہے۔ میہڑ کی مہندی کے منفرد پودے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سال میں دو بار فصل دیتا ہے، گرمیوں میں فی ایکڑ تقریباً 30 من پیداوار جبکہ سردیوں میں یہ مقدار دُگنی ہو جاتی ہے۔سب سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس کی ہر فصل کے لیے نیا بیج بونے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایک ہی پودا کئی سالوں تک مسلسل مہندی اگاتا رہتا ہے، جیسے زمین کا کوئی انمول تحفہ، جو اپنی خوشبو اور رنگت سے زمین کی محبت کا اظہار کرتا ہے۔
مہندی کا استعمال برصغیر، افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں ہزاروں سالوں سے رائج ہے۔ پہلے زمانے میں مہندی کے پتے پتھروں کی چکیوں پر پیسے جاتے تھے، مگر اب یہ چینی ’پن‘ والی جدید چکیوں پر پسائی کے عمل سے گزرتی ہے۔ مگر میہڑ کی مہندی محض سنگھار کا ذریعہ نہیں، یہ زخموں کا مرہم بھی ہے۔ ابتدا میں لوگ ہاتھوں اور پیروں کو مہندی کے پیسٹ میں بھگو کر جسم کا درجہ حرارت کم رکھتے تھے، پھر آہستہ آہستہ مہندی کے نقش و نگار بنانے کا رجحان شروع ہوا۔ پہلے چھوٹی لکڑیوں یا تنکوں کی مدد سے ڈیزائن بنائے جاتے تھے۔
کبھی ایسا تھا کہ میہڑ شہر کے چاروں طرف مہندی کے باغات ہی باغات ہوا کرتے تھے، گویا ہر گھر کا آنگن اس خوشبو سے مہکتا تھا، مگر وقت بدلا، نقل مکانی بڑھی، اور زمینوں کی قیمتیں سونے کے بھاؤ پہنچ گئیں، نتیجتاً یہ سبزہ زار دور دراز کھیتوں تک محدود ہو کر رہ گئے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے، مناسب سہولیات کی عدم دستیابی، زمین میں سیم و تھور کی زیادتی اور فصل کا مناسب معاوضہ نہ ملنے کے باعث میہڑ کے علاقے میں ہر سال مہندی کی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
الغرض مہندی، محض ایک پودا نہیں، بلکہ رنگ، خوشبو، اور ثقافت کا ایسا امتزاج ہے جو ہاتھوں پر حسین نقوش چھوڑتا ہے اور یادوں میں بسی خوشبو کی صورت باقی رہتا ہے۔ یہ جھاڑی نما پودااپنی سخت مگر نازک شاخوں کے ساتھ، نوکیلے سرخ پتوں اور خوشبودار سفید پھولوں کا مسکن ہوتا ہے۔یہ صدیوں کی ثقافت اور فطرت کا ایسا تحفہ ہے، جو ہر ہاتھ پر ایک نئی کہانی لکھ دیتا ہے۔
Daily Program
