ہیر رانجھا
ہیر رانجھا ایک مشہور پنجابی لوک کہانی ہے۔ متعدد مصنفین و شعرا نے یہ کہانی لکھی، لیکن ان میں سے سب سے مشہور وارث شاہ کی لکھی ہوئی ہیر وارث شاہ ہے۔ جو 1776ء میں پنجاب میں لکھی گئی۔ اس طرح کی مزید کہانیوں میں سسی پنوں، سوہنی ماہیوال وغیرہ شامل ہیں۔
وادی چناب کے یہ دو نام عشقیہ کہانی کا حصہ اور پنجابی ادب عالیہ کا سرمایہ بن چکے ہیں۔ ہیر رانجھا کی کہانی جسے وارث شاہ اور دیگر شعرا کرام نے بیان کیا، کے مطابق ہیر جھنگ کے نواب سیال خاندان کے ایک شخص چوچک کی لڑکی تھی جس کے حسن و جمال کا شہرہ چار وانگ عالم پھیل چکا تھا۔ قصبہ تخت ہزارہ ضلع سرگودھا کے ایک شخص رانجھا نامی جو مردانہ حسن کا نمونہ تھا۔ ہیر کے حسن کی غائبانہ شہرت سے متاثر ہوا اور ہیر کے خیال میں غلطاں رہنے لگا۔ رانجھے کی بھاوجہ نے ایک دن اْسے طعنہ دیا کہ کمائی نہیں کرتا مگر روٹی کے وقت ہزار حجتیں بناتا ہے تم نوابی چھوڑ دو، ورنہ جھنگ کی ہیر سیال کے پاس چلا جا،وہی اب تمہاری روٹی پکائے گی۔ گھی سے گوندھی ہوئی روٹیاں اْسی کی کھانا۔ رانجھا اپنی چار بھاوجوں کا طعنہ سن کر جھنگ کی طرف چل دیا۔ جھنگ بیلے میں سفر کرتا ہوا جب جھنگ کے پاس چناب کے کنارے پہنچا تو ایک آراستہ کشتی دیکھی جس میں پھولوں کی چادریں بچھی ہوئی تھیں مگر اس میں کوئی آدمی موجود نہ تھا رانجھا تھکا ہوا تھا وہ کشتی میں داخل ہو کر گھنی چھاؤں کے شرمیلے نشے میں مست ہو گیا۔ پچھلے پہر ہیر اپنی سہیلیوں کے ہمراہ آئی اس نے کشتی میں اجنبی کو سویا ہوا دیکھا تو اس کی نوابی حس بھڑک اٹھی، اْس نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ کشتی میں داخل ہو کر رانجھے کو نیند سے جگا دیا اور اسے سخت سرزنش کیا۔ اس دوران میں رانجھا نے ہیر کی طرف دیکھا اور ہیر نے اس کی طرف دونوں کی نگاہیں ملیں اور پھر جھک گئیں، کہاں ہیر اس اجنبی پر سخت خفا تھی مگر نظریں ملنے کے بعد اس کا انداز انتہائی نرم ہو گیا۔ یہ پہلی ملاقات دونوں کے درمیان مستقل عشق کی بنیاد بن گئی۔ رفتہ رفتہ دونوں قریب ہو گئے۔
چوچک نے ہیر کی سفارش پر اسے بھینسیں چرانے کے لیے ملازم رکھ لیا۔ رانجھا ہیر کی بھینسیں لے کر جنگل بیلے جاتا اور ہیر گھی میں گوندھی ہوئی روٹیاں لے کر اس کے پاس پہنچتی۔ دونوں میں پیار اس قدر بڑھا کہ ایک دوسرے میں فنا ہو گئے۔ ہیر کا چچا کیدو لنگڑا تھا اور ان دونوں کے پیار و محبت سے آگاہ ہو چکا تھا۔ ْاْس نے چوچک سے کہا۔ ہیر رانجھا کے ساتھ ملکر اپنی اور خاندان کی عزت خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے لہذا رانجھے کو یہاں سے نکال دو۔ چوچک نے پہلے کئی روز تک کیدو کی بات نہ مانی۔ پھر کیدو ایک دن چوچک کو لے گیا اور جھنگ بیلے میں دونوں کی ملاقاتوں کا مشاہدہ کرایا۔ چوچک نے گھر واپس آ کر رانجھا کو نوکری سے نکال دیا اور ہیر کا رشتہ سیدو قوم کھیڑا ساکن رنگ پور سے طے کر دیا۔ اِدھر چوچک کی بھینسیں جو رانجھے کی ونجلی پر مست رہتی تھیں رانجھے کی جدائی میں اداس ہو گئیں۔انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا اوردودھ دینا بند کر دیا۔دوسری طرف رانجھا ہیر کے لیے بے قرار رہنے لگا۔ ہیر اپنے محل میں مضطرب تھی۔ ہیر کا نکاح سیدو کھیڑے سے کر دیا گیا۔وہ ہیر کی ڈولی لے کر رنگ پور چلا گیا مگر وہ رانجھا کے لیے اداس و پریشان رہنے لگی۔ اس نے سیدو کھیڑے کو اپنا خاوند تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
ہیر کو یہاں ایک راز دار سہیلی سہتی ملی جو اس کی نند بھی تھی۔ سہتی بھی ایک شخص مراد سے محبت کرتی تھی مگر ان دونوں کے درمیان میں بھی دیوار حائل تھی۔ رانجھا ہیر سے ملاقات کے لیے بے قرار تھا اس نے ایک ہندو بال ناتھ کو اپنا مرشد بنایا اور اس کے مشورہ سے سادھو بن گیا۔ کان چھدوالیے اور جوگی بن کر بھیس بدل کر رنگ پور پہنچا اور سیدو کھیڑے کے مکان پر صدا لگائی۔ کھیڑوں کی عورتیں جن میں ہیر اور سہتی بھی شامل تھیں۔ سادھو کو خیرات دینے باہر نکلیں۔ ہیر نے رانجھے کو پہچان لیا اور رانجھے نے اپنا مقصود دیکھ لیا۔ رانجھے نے رنگ پور میں ڈیرہ لگا لیا اور خیرات کے بہانے ہیر کا دیدار کرتا رہا۔ بالآخر ہیر نے سہتی کے ساتھ مل کر پروگرام بنایا جس کے مطابق ہیر کو سانپ نے ڈس لیا جب ہیر بے ہوش ہو گئی تو اس نے کہا کہ اس زہریلے سانپ کے ڈسے کا علاج اس سادھو کے پاس ہے جو کئی دنوں سے رنگ پور کے باہر ڈیرہ لگائے بیٹھا ہے اسے بلاؤ۔ سادھو بلایا گیا۔ ہیر اور رانجھا کو ایک کمرہ میں بند کر دیا گیا تا کہ سادھو منتروں کے ذریعے ہیر کو صحت یاب کرے چنانچہ سہتی نے کمرہ کی دیوار میں نقب لگائی۔ ہیر رانجھا دونوں بھاگ گئے۔ سہتی بھاگ کر مراد کے پاس پہنچ گئی۔ یہاں تک تمام داستان گو یا شاعر قریباً متفق ہیں۔ بعض جزویات میں اختلاف ہے مگر اس کے بعد کے واقعات میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے بعض کہتے ہیں کہ رانجھا کو کھیڑوں نے جنگل میں پکڑ کر مار دیا تھا۔ بعض کہتے ہیں دونوں کو قتل کر دیا تھا، کچھ نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ دونوں جب جھنگ کے قریب پہنچے تو سیالوں نے ان کو قتل کر دیا تھا، کچھ داستان نویسوں نے یوں لکھا کہ رانجھا کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ہیر اپنے محل میں چلی گئی جہاں سے اس کی لاش ملی۔ بہر حال ہیر اور رانجھے کی کہانی کے اختتام پر اختلاف موجود ہے لیکن کہانی کے ابتدائی حصے اکثر و بیشتر شعرا نے ایک جیسے بیان کیے ہیں۔