قدیم لوک داستان ”موکھی اور متارا“
موکھی اور متارا کا سندھ کی ایک اور مشہور عشقیہ داستان ہے جو مومل رانو کی داستان سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ دراصل موکھی، مومل کی ایک خاص خادمہ ناتر کی بیٹی تھی۔ ناتر نے مومل کے منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے سیکڑوں بہادر نوجوانوں اور شہزادوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ان دنوں ریاست میر پور ماتھیلو (موجودہ ضلع گھوٹکی) کے حاکم راجا نند تھے۔ وہ بڑے دولت مند لیکن بے حد کنجوس حکمران تھے۔ مومل اس کی بڑی بیٹی تھی۔ ایک دفعہ ایک چالاک جادو گر نے دھوکے سے اس حاکم کی ساری دولت مومل سے ہتھیا لی۔ اپنے والد کی ناراضگی دور کرنے اور اس کی دولت لوٹانے کی خاطر مومل اور اس کی چھوٹی بہن نے لڈانو شہر (جیلسمیر ہندوستان) کے قریب کاک ندی کے کنارے ایک خطر ناک محل تعمیر کروایا۔
سیکڑوں عاشق مزاج اور بہادر صفت نوجوانوں کے علاوہ کئی دوسری ریاستوں کے شہزادے، مومل کو حاصل کرنے کے لئے اپنے ساتھ دولت لے کر محل پہنچ گئے لیکن محل کے طلسم اور خوفناک جانوروں کے خوف سے سب ناکام ہوگئے،اس ناکامی کا مطلب زیادہ تر موت تھی۔ اس طرح ان کی چھوڑی ہوئی دولت مومل اپنے والد کو بھیجتی رہی۔ بالآخر عمر کوٹ کے بادشاہ ہمیر سومرو کے بے انتہا ذہین اور چالاک وزیر، رانومیندھرو نے مومل کو حاصل کر لیا اور واپس عمر کوٹ چلا گیا۔
ہمیر سومرو بادشاہ نے حسد کے مارے رانو میندھرو پر پابندی لگا دی کہ وہ مومل سے ملنے نہیں جائیگا۔ اس طرح مومل اور رانو میں ہجرو فر اق کے فاصلے پیدا ہو گئے۔مومل اپنے محبوب کے انتظار میں بے قرار رہنے لگی۔ اس کی بہن سومل نے جب یہ دیکھا کہ مومل دن رات تڑپتے گزارتی ہے تو اس کا دل بہلانے کے لئے وہ رات کو رانو کا بھیس بدل کر ساتھ سونے لگی۔
ایک رات رانو جب غیر متوقع طور پر مومل کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ کسی اور کے ساتھ سوئی ہوئی ہے۔ پہلے تو خیال آیا کہ تلوار کے ایک ہی وار میں دونوں کا کام تمام کر دے لیکن مومل کی من موہنی صورت دیکھ کر نہ جانے کیا سوچا اور پلنگ کے قریب نشانی کے طور پر اونٹ کو ہکلانے والی چھڑی رکھ کر الٹے پاؤں واپس چلا گیا۔ صبح کو جب مومل سو کر اٹھی تو دیکھا کہ رانو کی لاٹھی اس کے سرہانے رکھی ہوئی ہے۔ اس نے سوچا کہ رات کو رانو میرے پاس آیا ہو گا، لیکن مجھے کسی دوسرے کے ساتھ دیکھ کر واپس لوٹ گیا ہو گا۔مومل نے رانو کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے کئی قاصد بھیجے، بہت سے جتن کئے، لیکن رانو کا غصہ ختم نہ ہوا۔ محبت سے مجبور ہو کر مومل نے خود سوزی کاارادہ کر لیا۔ اس نے ایک بڑی چتا جلوائی اور جب ہر طرف سے شعلے بلند ہونے لگے تو وہ ان شعلوں میں بے خطر کود پڑی۔ ادھر رانو کو بھی مومل کے اس ارادے کا علم ہو چکا تھا۔ وہ حیران و پریشان جب وہاں پہنچا تو دیکھا، ہر طرف آگ ہی آگ ہے اور مومل اس میں جل کر خاک ہو چکی ہے۔رانو کا دل اس آگ کی طرف کھینچنے لگا اور وہ بھی دہکتے ہوئے شعلوں کی بھینٹ چڑھ گیا اور اپنی محبوبہ سے جا ملا۔
داستان کے مرکزی کرداروں کے خاتمے اورکاک محل کے اجڑنے کے بعد مومل کی خاص خادمہ ناتر وہاں سے ہجرت کر کے سندھ کے مغربی حصے یعنی کراچی کے پاس گڈاپ کے ایک گاؤں میں آگئی اور پھر وہاں کے ایک باسی ہیبت خان خاصخیلی سے شادی کر لی، جس سے اس کی آٹھ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ناتر نے اپنی گزر بسر کے لیے ایک شراب خانہ کھولا۔ ان دنوں سندھ اور ایران میں شراب خانوں کا رواج عام تھا۔ اس نے اپنی سات بیٹیوں کی شادیاں کر دیں، جب کہ بڑی بیٹی موکھی کو اپنے شراب خانے والا کام سکھایا۔ موکھی بے حد حسین و جمیل اور حسن انتظام میں بھی اپنی مثال آپ تھی۔
موکھی کا شراب خانہ مشہور ہو گیا تھا۔ قرب و جوار کے علاوہ دور دراز علاقوں کے لوگ اس شراب خانے کی شہرت سن کر کھنچے چلے آتے تھے۔ یہ شراب خانہ ایک سرائے بن گیا تھا، جہاں آنے والے لوگوں کے لئے طعام و قیام کا بھر پور انتظام کیاجاتا تھا۔ شراب خانے کی شہرت سن کر کچھ دوستوں کا ایک گروہ وہاں آپہنچا۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے ان کو متاروں کے نام سے اپنی شاعری میں یاد کیا ہے۔ سب دوست موکھی کو بے حد پسند کرتے تھے۔ موکھی بھی ان کا انتظار کرتی تھی اور جب بھی وہ آتے،موکھی کے خاص مہمان ہوتے تھے۔ موکھی دل و جان سے ان کی مہمان نوازی کرتی۔
موکھی کے بارے میں تو کچھ معلومات مل جاتی ہے، لیکن متاروں سے متعلق کچھ روایات ہی ملتی ہیں۔ متاروں کی تعداد پر بھی محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ تاریخ دانوں نے متاروں کی تعداد چھ بتائی ہے،جبکہ کچھ کے خیال میں آٹھ تھے لیکن اکثر کتب اورسندھ کے کلاسیکی شعراء، سگھڑ اور بیت بازوں نے متاروں کی تعداد چھ ہی بتائی ہے۔
متارا سندھی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی صحت مند نوجوان یا پہلوان کے ہیں۔ سومرو اور سمہ دور میں سندھ کے سرحدی محافظوں کو بھی متارا کہا جاتا ہے۔ یہ باقاعدہ سرکاری تنخواہ دار ہوتے تھے۔ اس لوک داستان میں متاروں کے لئے بیت بازوں نے اپنی شاعری میں سردار، داتا سرے کے سردار وغیرہ جیسے القاب سے یاد کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے خاص منصب پر فائز تھے یا پھر اپنے علاقے کے سردار تھے۔
ایک روایت کے مطابق یہ متارے حسب معمول رات کے وقت موکھی کے پاس گئے اور اس سے کوئی پرانی شراب پلانے کی فرمائش کی۔ موکھی کی سب بھٹیاں خاموش ہو چکی تھیں،شراب بھی ختم ہو گئی تھی،البتہ ایک پرانے بڑے مٹکے میں شراب تھی، لیکن اس میں ایک زہریلے سانپ کی کھال تیر رہی تھی۔ موکھی سمجھ گئی کہ شراب زہریلی ہو گئی ہے،دوسری طرف متارے بضد تھے کہ ان کو ہر صورت شراب پلائی جائے۔ مجبوراً موکھی نے انہیں وہی زہریلی شراب پلا دی۔ رات گزار کر وہ وہاں سے چلے گئے۔
متارے عموماً سال میں تین چار مرتبہ موکھی کے ہاں آتے اور اس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ لیکن اس مرتبہ سال بیت گیا، وہ نہیں لوٹے۔موکھی سوچتی رہتی کہ نہ جانے متارے زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔ایک سال گزرنے کے بعد متارے اچانک آگئے۔ موکھی اپنے خاص مہمانوں کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئی۔ متاروں نے اسی شراب کی فرمائش کی، جو انہوں نے گزشتہ سال پی تھی۔ موکھی نے انہیں بے شمار دوسری شرابیں پیش کیں، لیکن وہ بضد رہے کہ انہیں وہی شراب پلائی جائے۔ مجبوراً موکھی کو بتانا پڑاکہ جو شراب ان لوگوں نے پچھلے سال پی تھی، اس کے زیادہ نشے کا سبب یہ تھا کہ وہ بہت پرانی تھی، دوسرے یہ کہ اس مٹکے میں زہریلا سانپ گر گیا تھا اوراس میں زہر ملا ہوتا تھا۔ یہ سنتے ہی متاروں نے سوچا کہ انہوں نے سانپ کا زہر پیا تھا،اس کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ سانپ کی اس دہشت سے سب پر دل کا دورہ پڑا اور فوری دم توڑ دیا۔
موکھی کو متاروں سے بے حد محبت تھی۔ ان کے مرنے کا اسے بہت صدمہ ہوا۔ اس نے ان متاروں کی قبریں شراب خانے سے تقریباً چار کلو میٹر دور نارتھر پہاڑی پر بنوائیں،جوآج بھی وہاں موجود ہیں۔ متاروں کے مرنے کے بعد موکھی کے شراب خانے کا زوال شروع ہو گیا اور باقی زندگی موکھی نے بڑی مفلسی اور تنگ دستی میں گزاری۔ اسی عرصے میں اس کی ماں ناتر بھی فوت ہوگئی۔ موکھی نے اپنی باقی زندگی اس شراب خانے کے پاس گزاری اور وہیں مر گئی۔ آج بھی اس کی قبر شراب خانے کے پاس موجود ایک قبرستان میں ہے۔
ناراتھر پہاڑی پر ایک چھوٹی چار دیواری میں چھ قبریں اندر اور ایک قبر باہر ہے۔ ان میں کچھ قبروں پر متاروں کے نام بھی درج ہیں۔ ایک قبر پر حاجی حالار لکھا ہوا ہے۔ دوسری قبر پر محمد اسماعیل،تیسری قبر پراسحاق خان، چوتھی قبر پر رستم آدم اور پانچویں قبر پر یاد گار اسماعیل حاجی لکھا ہوا ہے،دیگر قبروں پر نام درج نہیں۔ یہ سب قبریں ایک جیسی ہیں۔ چار دیواری میں ایک پتھر کو اس طرح تراشا گیا ہے کہ وہ پیالے کی طرح گول سا لگتا ہے۔ یہ پتھراب دو ٹکڑے ہو گیا ہے۔یہ قبریں چوکنڈی کی طرزپر تعمیر کی گئی ہیں اور اوائلی دور کی معلوم ہوتی ہیں۔ اس طرح کی طرز تعمیر کو سندھی زبان میں ”گھاڑی“ بھی کہتے ہیں، جس کے معنی ”گھڑی ہوئی“ کے ہیں۔ اس طرز کی قبریں ساحل مکران سے لے کر میر پور ساکرو (ضلع ٹھٹھہ) تک ہیں۔ اس طرح کی قبریں زیادہ ترجوکھیہ، کلمتی اور برفت قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہیں۔ متاروں کی قبریں بھی گھاڑی طرز کی ہیں۔
موکھی کی قبر سہراب گوٹھ سے 18کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ متاروں کی قبریں پتھر کی بنی ہوئی ہیں۔ لیکن ان کے برعکس موکھی کی قبر بالکل سادہ اور عام قبروں کی طرح بغیر کسی کتبے کے ہے۔ پہلے چار دیواری میں تھی، لیکن بعد میں مچاور حاجی خان خاصخیلی نے اسے سیمنٹ سے مضبوط کروا کے اس کو ایک چھوٹے سے کمرے کی شکل دلوائی ہے۔
حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ کے ابیات میں کراچی کی قدیم لوک داستان ”موکھی اور متارا“ کا تذکرہ موجود ہے۔ شاہ لطیف نے جو شاعری کی ہے، اس نے اس لوک داستان کو امر بنا دیا ہے۔ اگر بھٹائی اس لوک داستان کو اپنی شاعری میں خاص اہمیت نہ دیتے تو یقیناً یہ داستان فنا ہو جاتی۔