ہوبا (Hoba) میٹیورائٹ
شہاب ثاقب یا وہ چمک دار (یعنی ثاقب) اجرام فلکی ہیں جو فضا سے آتے ہیں اور زمین پر گرتے ہیں ان کو شہابیہ بھی کہا جاتا ہے اور عام اردو میں ان کو گرتے یا ٹوٹتے ستارے بھی کہتے ہیں اور ستاروں کا گرنا بھی کہا جاتا ہے۔ فی الحقیقت یہ شہاب (meteoroid) یا نیزک ہوتے ہیں جو زمین کے کرہ ِہوا میں داخل ہو جاتے ہیں اور ram pressure کی وجہ سے چمک (ثاقب) پیدا کرتے ہیں۔جب کوئی شہاب اس طرح زمین (یا کسی اور سیارے) کی فضاء میں داخل ہو جائے اور چمک پیدا کرے یا اس کے کرہِ ہوائی سے گذرتا ہوا اس کی سطح پر گر جائے تو اسے شہابیہ (meteorite) کہا جاتا ہے۔ شہابیہ کو اردو میں سنگ شہاب بھی کہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے شہاب ثاقب کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ مگر بڑے شہاب ِثاقب یقینا نایاب ہوتے ہیں۔ ثاقب اصل میں عربی زبان کے لفظ ثقب سے بنا ہو ایک ا لفظ ہے جس کے بنیادی معنی سوراخ یا چھید کے ہوتے ہیں۔جب شہاب زمین کی فضاء میں داخل ہو کر روشنی پیدا کرتے ہیں تو اس سے پیدا ہونے والے لکیر نما راستے کو سوراخ سے گذر کے نکلنے والی روشنی سے تشبیہ دے کر ثاقب کو سوراخ کر ساتھ تابندہ یا روشن کے معنوں میں استعمال کرکے شہاب ثاقب کا لفظ بنایا جاتا ہے۔
1908ء میں سائبیریا میں شہاب ثاقب کے گرنے کا واقعہ پیش آیا تھا جس سے تقریباًً دوہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ تباہ ہو گیا تھا۔ بیسیویں صدی کے دوران زمین پر دو بڑے شہاب گرے تھے۔ ان میں سے ایک کا وزن 60 ٹن تھا۔ 27 ستمبر 1969 ء کو مرچی سن، آسٹریلیا میں ایک شہاب گرا تھا۔ اس کے وزن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چھوٹے سیارچوں کی پٹی سے وجود میں آتا تھا۔2013 کے دوسرے مہینے میں وسطی روس میں یورل کے پہاڑوں پر شہاب ثاقب کے ٹکڑوں کی بارش کے باعث تقریباًً سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔اب بات کرتے ہیں ہوبا (Hoba) میٹیورائٹ کی، جو افریقہ کے ملک نمیبیا میں ایک کسان نے حادثاتی طور پر دریافت کیا۔یہ دنیا کا سب سے بڑا شہابِ ثاقب ہے۔ اس کا وزن حیران کن طور پر 60 ٹن ہے، اور یہ زمین پر پایا جانے والا سب سے بڑا قدرتی لوہے کا ٹکڑا بھی ہے۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ تقریباً 80,000 سال پہلے زمین سے ٹکرایا تھا۔ اس شہاب ثاقب کا سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ اپنی بے پناہ جسامت کے باوجود اس نے زمین پر کوئی اثر گڑھا (crater) نہیں چھوڑا۔
ہوبا میٹیورائٹ زمین پر دریافت ہونے والے سب سے بڑے اور وزنی شہاب ثاقبوں میں سے ایک ہے۔ عام طور پر جب کوئی بڑا میٹیورائٹ زمین سے ٹکراتا ہے تو اس کی ٹکر سے زمین میں ایک گڑھا بنتا ہے، جسے ہم”امپیکٹ کریٹر“ کہتے ہیں۔ لیکن ہوبا میٹیورائٹ نے اپنی جسامت اور وزن کے باوجود کوئی ایسا گڑھا نہیں بنایا، جو سائنسدانوں کے لیے ایک حیران کن بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ زمین کی فضا میں کافی رفتار کھو چکا تھا اور پھر آہستہ آہستہ زمین پر گرا، یا پھر اس کی سطح زمین کے ساتھ ٹکراؤ کا زاویہ مخصوص تھا جس کی وجہ سے کوئی گڑھا نہیں بنا۔