لندن کی خوفناک زہریلی دھند
آج کل پنجاب، خاص کر لاہور شہر، شدید اسموگ کی لپیٹ میں ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آج سے تقریباً 72 سال پہلے لندن بھی ایسی ہی خطرناک دھند کا شکار ہوا تھا۔ دسمبر 1952 میں، لندن پر ایسی تباہ کن اور مہلک دھند چھائی کہ جس نے چند دنوں میں ہزاروں لوگوں کی جانیں لے لیں۔ اس واقعے کو ''گریٹ اسموگ'' کا نام دیا گیا اور یہ فضائی آلودگی کی بدترین مثالوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
اس خوفناک دھند کا آغاز 5 دسمبر کی صبح ہوا، جب شہر میں دھند آہستہ آہستہ پھیلنے لگی۔ لندن میں شدید سردی تھی، اور لوگوں نے اپنے گھروں کو گرم رکھنے کے لیے زیادہ مقدار میں کوئلہ جلانا شروع کیا۔ اس وقت کے صنعتی دور میں فیکٹریوں اور چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے فضاء کو زہرآلود کر دیا تھا۔ فیکٹریوں اور چمنیوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں ہوا میں پانی کے بخارات سے ملا اور ایک خطرناک تیزاب نما دھند نے پورے شہر کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس زہریلی دھند کی وجہ سے فضا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ جیسے زہریلے کیمیکلز کی موجودگی بڑھ گئی، جس نے سانس لینے میں مشکلات پیدا کیں اور لوگوں کی آنکھوں میں جلن ہونے لگی۔ دھند کی گہرائی اتنی زیادہ ہو گئی کہ دن کے وقت بھی لوگوں کے لیے باہر نکلنا خطرناک ہو گیا۔ اس کثیف دھند میں گاڑیاں، بسیں، اور ٹرینیں بھی رک گئیں، اور پورے شہر میں اندھیرا چھا گیا۔ یہ آلودگی تقریباً 30 میل تک پھیل گئی تھی اور لوگوں کے لیے اپنے ہاتھوں کو دیکھنا مشکل ہو گیا تھا۔ پانچ دنوں کے اس تباہ کن عرصے میں تقریباً 12,000 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں لوگ سانس کی بیماریوں کا شکار ہو کر ہسپتالوں میں پہنچ گئے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کا اتنا رش بڑھا کہ جگہیں کم پڑ گئیں اور وہاں کام کرنے والے عملے کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس تباہ کن دھند کے بعد، لندن کے لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں۔ عوامی دباؤ کے نتیجے میں برطانوی حکومت نے 1956 میں پہلی بار ''کلین ایئر ایکٹ'' متعارف کروایا جس کا مقصد ایسی آلودگی کو روکنا تھا تاکہ مستقبل میں اس طرح کا سانحہ دوبارہ نہ ہو۔ جس میں صنعتی اور گھروں سے نکلنے والے دھوئیں کو کنٹرول کرنے کے لیے شہروں اور قصبوں میں ’سموک کنٹرل ایریاز‘ بنائے گئے جہاں صرف ایسے ایندھن جلائے جاتے جن کا دھواں قدرے کم ہوتا ہے، اور گھروں کے مالکان کو سبسڈی دی گئی تاکہ وہ پائیدار ایندھن پر منتقل ہو سکیں۔سنہ 1968 میں اس ایکٹ میں توسیع کی گئی اور لندن کی ایئر کوالٹی میں اس کے بعد کی دہائیوں میں بہتری آنے لگی۔
شہر کی جانب سے ’الٹرا لو ایمشن زون‘ متعارف کروائے گئے جن میں زیادہ دھواں پھیلانے والی وہیکلز پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ لندن سٹی ہال کی جانب سے اس پالیسی کے نفاذ کے چھ ماہ بعد کہا گیا کہ فضائی آلودگی میں ایک تہائی کی کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم اب بھی لندن میں فضائی آلودگی یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
گریٹ اسموگ'' کا یہ واقعہ آج بھی ایک یاد دہانی کے طور پر جانا جاتا ہے کہ ماحولیات کی حفاظت اور فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے میں ناکامی انسانی جانوں کے لیے کتنی بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔