اسموگ اور سانس کی جنگ
ہمارے ملک میں دھند عموما دسمبر کے آخر میں اور جنوری کے مہینے میں پائی جاتی ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ وقت سے پہلے بھی آن پہنچتی ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہوا میں ہر وقت آبی بخارات موجود ہوتے ہیں لیکن جب ہوا میں نمی کا تناسب ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو یہ بخارات ہواسے الگ ہو کر فضاء میں موجود گرد و غبار اور دوسرے ذرات کے اوپر جم جاتے ہیں اور پانی کے قطروں کی شکل میں زمین کے اوپر فضا میں معلق ہو کر دھند کا سماں پیدا کرتے ہیں۔اب جہاں تک سموگ کی بات ہے تو یہ اصطلاح سب سے پہلے سموک اور فوگ کو ملا کر بنائی گئی یعنی دھوئیں،گردوغبار اور دوسری مضر گیسوں سے مل کر بننے والی دھند ہے جسے زہریلی یا آلودہ دھند بھی کہا جا سکتا ہے۔سموگ دراصل فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے جو سلفر ڈ ائی آکسائیڈ، کلورو فلورو کاربنز، کاربن مانوآکسائیڈ، تابکار مادوں، گاڑیوں کے دھوئیں سے خارج ہونے والے نائٹروجن کے آکسائیڈز، ہائیڈرو کاربنز، میٹلک کمپاؤنڈز اور زہریلی گیسوں کے اخراج سے فضا میں شامل ہونے والے فضائی پلوٹینٹس کی وجہ سے بنتی ہے۔یہ فضائی پلوٹینٹس جب دھند کے ساتھ جا ملتے ہیں تو یہ کالے اور زرد رنگ کی سموگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
بحرحال سموگ پہلی دفعہ ہمارے ہاں دیکھنے کو نہیں ملی یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اس سے قبل لندن، لاس اینجلس، بیجنگ، تہران، دہلی،میکسیکو اور دنیا کے کئی بڑے بڑے شہر اس کی لپیٹ میں وقتا فوقتا رہ چکے ہیں،جہاں تک موجودہ سموگ کے ختم ہونے کے امکانات کا تعلق ہے تو بارشوں کا سلسلہ شروع ہو تے ہی حالات فی الفور معمول پر آ جائیں گے۔ اب اگر سموگ کے مہلک اثرات پر نظر ڈالی جائے تو یہ انسانی جسم کے لئے بھی نہایت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ سموگ نظر کی خرابی کے علاوہ گلے کی خراش، سینے اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے،ان بیماریوں میں مبتلا افراد کو نہائیت احتیاط کی ضرورت ہے۔پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اسموگ کی ابتر صورت حال کے پیش نظر شہر سمیت پنجاب بھر میں آنکھ، ناک، کان، گلے اور سانس لینے میں تکلیف سمیت دوسری بیماریاں پھیلنے لگیں۔ سالِ رواں میں تو لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس ایک ہزار سے تجاوز کر گیا تھا جو کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے معیار سے 70 فیصد تک زائد تھا۔لاہور سمیت پنجاب کے دوسرے علاقوں میں بھی اسموگ کی صورت حال خراب ہونے کی وجہ سے پنجاب بھر میں آنکھ، کان، ناک، گلے اور سانس کی بیماریاں پھیلنے لگی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت سمیت دوسرے اداروں کی مختلف تحقیقات میں پہلے یہ بتایا جا چکا ہے کہ فضائی آلودگی یعنی اسموگ وغیرہ سے امراض قلب، پھیپھڑوں کی بیماریوں سمیت پھیپھڑوں کا کینسر اور فالج جیسے سنگین امراض بھی ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں سالانہ فضائی آلودگی کے باعث لاکھوں افراد ہلاک ہوتے ہیں۔فضا میں چہار سو پھیلی سموگ کی وجہ سے نہ صرف نظام زندگی متاثر ہو چکا ہے،بلکہ یہ مختلف بیماریوں کا باعث بھی بن رہی ہے۔ اس کے لئے طبی ماہرین کی ہدایات پر سختی سے عملدرآمد ضروری ہو گا جن کے مطابق اس طرح کے موسم میں کھلے ماحول میں گھومنے پھرنے سے پرہیز کیا جائے، منہ اور ناک پر ماسک وغیرہ پہن کر رکھیں،پانی کا استعمال زیادہ کیا جائے۔
چونکہ یہ مسئلہ دنیا بھر کے ممالک کو درپیش ہے اسی لئے اس کے سد باب کے لئے بڑے پیمانے پر کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔مثال کے طور پر سموگ سے نمٹنے کے لئے دنیا کے کئی ممالک میں بہت بڑے بڑے ویکیوم ایئر کلینر نصب کر دیئے گئے ہیں۔اس سلسلہ میں فوسل فیولز یعنی کوئلہ،گیس اور تیل کی بجائے انرجی کے متبادل ذرائع جن میں سولر انرجی،اٹامک انرجی،ہوا اور پانی کی انرجی وغیرہ شامل ہیں پر انحصار بڑھایا جائے، کیونکہ فوسل فیولز کے جلنے سے فضا میں دھوئیں کے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ایک بڑی مقدار بھی شامل ہو جاتی ہے جو فضا کو آلودہ کر دیتی ہے۔کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ علاوہ ازیں صنعتی پلانٹس،گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں اور دوسری زہریلی گیسوں کو ایک خاص حد تک کم کیا جائے تاکہ ہم اور ہماری نسلیں ان کے مہک اثرات سے محفوط رہ سکیں۔