سکھ چین
پاکستان میں پایا جانے والا ایک خوب صورت درخت
نباتاتی لاطینی زبان میں“پونگامیہ پائی نیٹا ”کہلانے والے اس درخت کو سکھ چین کا نام اسکی اسی چھاوئں اور رغبت سے دیا گیا۔ اگر آپ نے اسے نظر بھر کر دیکھا ہے یا آپ اس کی بھرپور چھاؤں میں کچھ دیر کو سستائے ہیں تو یہ بات سمجھنے کیلئے ذرا بھی مشکل نا ہوگی۔
سکھ چین کی چھاؤں بہت گہری اور ٹھنڈی ہوتی ہے۔ موسم بہار کے اختتام پر جب سورج ا پنی سلطنت کے طول و عرض میں تپش کے کوڑے برسانا شروع کرتا ہے تو سکھ چین ہی ایک ایسا درخت ہے جو اگر ہمیں اپنی محبت بھری آغوش میں لے لے تو سخت تپش سے با آسانی امان پائی جا سکتی ہے۔ انہی دنوں یہ اپنے نئے پتے نکالتا ہے۔ بہت ہی ہلکے سبز رنگ کے خوبصورت پتوں سے چھن کر سورج کی تیز دھوپ ایک الگ ہی رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ اور اس الگ سی روشنی میں سکھ چین کو صرف دیکھتے رہنا بھی باعث خوشی اور نرالے پن کا احساس دلاتا ہے۔
اپنے شجرہ نسب کے مطابق یہ ایک خاندانی درخت کہلاسکتا ہے۔ سکھ چین نباتات کے وسیع اور عظیم خاندان ''فیب ایسی'' کے لگ بھگ 19400 ارکان میں سے ایک ہے اور خوب ہے۔ اسی خاندان کے اور بھی بہت سے پودے اور درخت ہماری خوراک کا حصہ ہیں جن میں لوبیہ، مٹر، جیسی سبزیاں، چنے اور دالیں جیسی خوراکیں شامل ہیں۔
یہ درخت ایک طرف تو اپنی ٹھنڈی اور گھنی چھاوں میں ہمیں سستانے کا موقع دیتا ہے اور دوسری جانب یہ ماحول کی بقا اور زمین کی حفاظت میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ درخت جنوبی پنجاب اور سندھ کے ریگستانوں تک نظر آتا ہے۔ اسے ہندوستان اور دیگر علاقوں میں مختلف ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔
کہیں یہ کارنج ہے تو کسی کے لیے پونگ، پونگم اور کوئی اسے ہونگ کے نام سے شناخت کرتا ہے۔ ہمارے یہاں یہ سکھ چین کہلایا جس کی مختلف وجوہ ہیں جس میں سب سے اہم اس درخت کا گھنا اور سایہ دار ہونا ہے۔
یہ درخت عام طور پر گرم اور مرطوب علاقوں میں پنپتا ہے۔ چین، ملائیشیا اور آسٹریلیا میں بھی سکھ چین پایا جاتا ہے۔ نباتات کے مطاہرین کے مطابق یہ پندرہ اور پچیس میٹر تک اونچا ہوسکتا ہے۔ عموماً اس کا پودا ہر قسم کی زمین میں
جڑیں پکڑ لیتا ہے جیسے ریتیلی، چٹانی اور اس جگہ بھی جہاں زمین میں چونا پایا جاتا ہے۔
سکھ چین ہماری زمین اور ماحول کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی گھنی جڑیں مٹی کا کٹاو روکتی ہیں اور ریت کے ٹیلوں کو مستحکم کرنے میں اسے مثالی قرار دیا جاتا ہے۔یہ چھتری نما درخت ہوتا ہے۔یہ درخت تین سالوں میں چھاوں۔ پھر چوتھے سال میں پھول دینا شروع کرتا تھا اور دس سال کی عمر میں مکمل درخت بن جاتا ہے۔دنیا کے بڑے سائنسدانوں نے پیوند کاری سے اس کی ایسی قسم تیار کی جو تین سال کے قلیل عرصے میں ہی مکمل درخت اور بھرپور پیداوار دے گی۔سکھ چین کا نام ہمارے پاکستان میں ہی پڑا۔ جو ایک مرکب لفظ ہے اور دو الفاظ یعنی سکھ اور چین سے مل کر بنا ہے جو تقریباً ہم معنی ہیں۔ سکھ ایک احساس ہے جو ہمیں کسی سے حاصل ہوتا ہے اور چین ایک کیفیت ہے۔یہ دونوں ہمیں اس درخت کے سائے تلے ملتے ہیں۔
سکھ چین درخت کی شجرکاری بڑھانے کی ا شد ضرورت ہے۔ اس کے پودے ہر نرسری سے با آسانی میسر آ جاتے ہیں۔ پرانے اونچے اور گھنے درختوں میں یہ مقبول ترین درخت ہے۔ اسکی خاص بات یہ بھی ہے کہ اسے جتنا اونچا لے جانے کے بعد اسے ترتیب سے کٹاو کریں تو یہ با آسانی چھتری نما بن جاتا ہے۔۔ کانٹ چھانٹ کے دوران درخت گھنا بنایا جائے تو بارش کے وقت اسکے نیچے بیٹھ جائیں بارش کا پانی نیچے نہیں پہنچ سکتا۔۔اس کے بیچ پتوں اور چھال سے حکیم لوگ کئی مفید مرکبات بھی بناتے ہیں۔