اسموگ


نہایت کثیف اور ایک خاص قسم کی بُو کے ساتھ جب کہرے کے دوسری جانب دیکھنا ممکن نہیں رہتا جس کے بعد اسےFog (دھند) اور Smoke (دھویں) کی آمیزش مان کر اسموگ کہا جانے لگا۔ ماہرین نے بتایا کہ فضائی آلودگی کی اس شکل میں سلفرآکسائڈ، اوزون کے علاوہ کاربن مونو آکسائڈ، نائٹروجن آکسائڈ اور دیگر عناصر شامل ہیں جو صنعتوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کی صورت میں آلودگی کا سبب بنتی ہیں جب کہ اسموگ کی ایک بڑی وجہ مختلف دھاتوں، فصلوں، کوئلہ وغیرہ اور دوسری اشیا کو جلانا ہے جس سے یہ مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز میں ماہرینِ ماحولیات اور عام لوگ اس طرف متوجہ ہوئے اور معلوم ہوا کہ یہ دھند اور دھوئیں کی آمیزش ہے جو موسمِ سرما کی اجلی دھند یا کہرے سے بہت مختلف اور نہایت کثیف ہے جو انسانوں کے لیے تکلیف دہ ثابت ہو رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لندن وہ پہلا شہر تھا جہاں سب سے پہلے اس قسم کی فضائی آلودگی کا لوگوں نے سامنا کیا اور اس کے لیے اسموگ کا لفظ استعمال ہوا۔

اسموگ صرف پاکستان اور دوسرے ترقی پزیر ملکوں کا مسئلہ نہیں بلکہ جدید اور ترقی یافتہ ملکوں کے مختلف شہر بھی اسموگ سے متاثر ہیں اور لوگوں میں خاص طور پر نظامِ تنفس اور جلد سے متعلق امراض کی شرح بڑھ رہی ہے۔ کینڈا، چین، لندن، سان تیاگو، چلی، میکسیکو، ایران، لاس ایجلس، منگولیا جیسے ملک اسموگ سے متاثر ہیں۔
اسموگ سے بچنے کے لیے شہریوں کو ہر ممکن احتیاطی تدبیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے جس میں سب سے پہلے ماسک کا استعمال یقینی بنانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اسموگ کے دوران غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہ نکلا جائے۔ اسموگ میں کونٹیکٹ لینس کا استعمال نہ کیا جائے۔ آنکھوں کی صفائی کے لیے معالج کی ہدایت پر ڈراپس کا استعمال کریں۔ طبی ماہرین کے مطابق شہری عینک کا استعمال کریں تاکہ اسموگ سے آنکھیں براہِ راست متاثر نہ ہوں۔

 

Daily Program

Livesteam thumbnail