ڈاکٹر روتھ فاؤ، پاکستان کی مدر ٹیریضہ
انسانیت کے روپ میں فرشتے کے تصور سے کچھ ایسے چہرے نظروں میں آتے ہیں جن کی ساری زندگی لوگوں کی فلاح اور بہبود کیلیے کام کرتے گزرگئی۔ مریضوں کی دیکھ بھال اور بیماروں کی تیمارداری جیسے بیلوث کام کرنیوالوں کو معاشرے میں اعلی مقام دیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں غربت کے باعث لوگ علاج کی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں، وہیں کوڑھ یعنی لیپرسی جیسے مرض کی مریضوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔
اس مرض کے نام سے ایک ایسے مسیحا کا نام جڑا ہے جس نے اپنی تمام زندگی موذی مرض میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال اور علاج میں صرف کردی۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ نے وہ کر دکھایا جس کا تصوربھی ممکن نہیں۔ روتھ فاؤ نے ستاسی برس قبل جرمنی کے شہرلپزگ میں مسیحی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں دیکھیں۔ جنگ نے ان کے شہر کو شدید متاثر کیا اور ان کا مکان جنگ کی زد میں آکر تباہ ہوگیا۔ مجبور ا، روتھ فاؤ کو جنگ زدہ علاقے سے اپنے خاندان کے ہمراہ مغربی جرمنی آنا پڑا۔ روتھ نے یہاں طب کی تعلیم حاصل کی۔ مینز اور ماربرگ کی یونی ورسٹیاں روتھ کی درس گاہیں ہیں۔ جرمنی میں وہ راہبہ گروپ سے منسلک ہوئیں جس کو بھارت میں طب کی تربیت کا مشن سونپا گیا تھا۔ 8 مارچ 1960 کو بھارت جاتے ہوئے وہ کراچی میں رکیں اور ویزا مسائل کی وجہ سے ان کا یہاں قیام مستقل طور پرہوگیا۔ ڈاکٹر روتھ کو کراچی میں اس وقت کے علاقے میکلیوڈ روڈ میں جزام کے کچھ ایسا مریض ملے جن کی حالت انتہائی ابتر تھی۔ اس صورتحال نے ڈاکٹر روتھ کے دل میں خدمت کا ایسا جذبہ جگایا کہ وہ پاکستان کی ہوکررہ گئیں۔ انھوں نے کراچی کے پسماندہ علاقے میں میری ایڈیلیڈ لیپرسی مرکز کی بنیاد ڈالی۔
اس مرکز میں جذام کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔انھوں نے اس مہلک مرض میں مبتلا افراد میں امید کی کرن جگائی۔ ڈاکٹر روتھ کی صورت میں کوڑھ میں مبتلا مریضوں کو مسیحا مل گیا۔ڈاکٹر روتھ نے جرمن شہری ہونے کے باوجود پاکستان میں رہنے کو ترجیج دی۔ انھوں نے جذام کے مریضوں کی دیکھ بھال اور خدمت کے لیے دن رات ایک کردئیے۔ ڈاکٹر روتھ نے پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی جذام سے بچاؤ اور علاج کے لیے مراکز کھولے ہیں۔ انھوں نے تپ دق یعنی ٹی بی جیسے خطرناک مرض کے حوا لے سے بھی کام کیاہے۔ وہ اپنی شفقت،خدمت،لگن اور خلوص کی وجہ سے کراچی سے خیبر تک جانی جاتی تھیں۔
حکومت پاکستان نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کی طب کے شعبہ میں خدمات پر انھیں 1988 میں پاکستان کی شہریت دی۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے پاکستان میں 1996 میں جذام پر قابو پالیاگیاتھا اور اس کا عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جاچکاہے۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ مکمل طورپر پاکستانی اطوار میں ڈھل چکی تھیں۔ سرخ سفید رنگ کی ڈاکٹر روتھ قمیض شلوار میں انتہائی جاذب نظر اور شفیق دکھائی دیتیں۔ انھوں نے اردو زبان میں بھی مہارت حاصل کررکھی تھی جس کی وجہ سے انھیں اپنے مریضوں اور روز مرہ امور پر بے حدآسانی ہوتی۔انھوں نے جرمن زبان میں 4 کتابیں بھی تحریر کیں۔ ان کتابوں میں ڈاکٹر روتھ فاؤ نے اپنے کام کے حوالے سے مختلف تجربات بتائے ہیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ کی عوامی خدمات اگرچہ کسی ایوارڈ یا اعزازکی محتاج تو نہیں۔ مگر انھوں نے اپنے بے لوث جذبے سے جرمنی اور پاکستان میں اعلی ترین اعزازات حاصل کئے۔ 1968 میں انھیں جرمنی میں آرڈر آف دی کراس عطا کیاگیا۔جرمنی کی جانب سے اس عظیم خاتون کو 1985 میں کمانڈرزکراس آف دی آرڈرآف میرٹ ودھ اسٹار سے نوازاگیا۔فلپائن کی حکومت کی جانب سے انھیں 2002 میں رامن میگسے ایوارڈ دیا گیا۔ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر روتھ کو 1969 میں ستارہ قائداعظم کااعزاز دیا۔ دس برس بعد،1979 میں حکومت پاکستان نے ڈاکٹر روتھ کی خدمات کے اعتراف میں انھیں ہلال
امتیاز سے نوازا۔ 1989 میں انھیں ہلال پاکستان کا اعزاز حکومت پاکستان کی جانب سے دیا گیا۔ اپریل 2003 میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کو جناح سوسائٹی نے جناح ایوارڈ سے نوازا۔ 2004 میں انھیں آغا خان یونی ورسٹی کی جانب سے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری ملی۔2004 ہی میں روٹری کلب آف کراچی نے انھیں لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ دیا۔2006 میں انھیں صدر پاکستان نے لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا۔2010 میں انھیں نشان قائد اعظم بھی ملا۔کراچی میں جرمن قونصل خانے میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کو جرمن حکومت کی جانب سے سونے کا اسٹیفر میڈل بھی دیا گیاجو اپنی نوعیت کا بہت منفردموقع تھا۔
بلاشبہ ڈاکٹر روتھ فاؤ نے طب کے شعبے میں وہ لازوال خدمات انجام دی ہیں جن کی جتنی بھی پذیرائی کی جائے وہ کم ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والی نسلوں کو قوم کے ان ہیروزکے کارناموں سے متعلق آگاہی دی جائے تاکہ اقوام عالم میں ہم فخر سے سر بلند کرکے موذی امراض سے بچاؤ کیلیے کام کرنے والوں کوخراج تحسین پیش کرسکیں۔
(آرٹیکل: فرانسسِ زیوئیر)