ڈاکٹر امام دین شہباز (پنجابی پرستش کا سُورما)
ڈاکٹر امام دین نے اپنی پاسبانی خدمات کا آغاز پریسبٹیری مشن سے کیا۔ یہ مشن 1856ء میں برصغیر میں داخل ہوا۔ اور اِس ہی مشن نے کلیسیاء بھی قائم کی۔ اِس کے پہلے باقاعدہ مشنری پادری اینڈریو گارڈن تھے۔ جن کے ذمہ یہ ذمہ داری بھی لگائی گئی کہ وہ کسی مقامی شاعر کو لیں اور زبور کی کتاب کو عبادت میں گانے کے لیے منظوم کریں۔ انہی دِنوں ڈاکٹر امام دین نے اپنی ایک نظم کے ذریعے سے رسالہ ''نورِ افشاں ''میں اول انعام حاصل کیا تھا۔ اِسی قابلیت اور خداداد صلاحیت کو دیکھتے ہوئے، اینڈریو گارڈن نے اُن کو یو۔پی مشن میں آنے کی دعوت دی، جس کو انہو ں نے قبول کر لیا۔ پھر انہوں نے پسرور اور سیالکوٹ میں اپنی پاسبانی خدمات بھی سر انجام دیں۔ اور اِسی دوران زبوروں پر بھی کام کیا۔ کیونکہ اُس دور میں گیت جو ترجمہ کے ساتھ لائے جاتے تھے وہ مغربی راگیں ہونے کی وجہ سے مقامی لوگوں کی روحانی تسکین کو مٹا نہ سکتے تھے، اِسی لیے یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ زبوروں کو مقامی زبان میں منظوم کیا جائے تاکہ وہ عام لوگوں کے لیے زیادہ نزدیک ہوں۔ سب سے پہلے جو ترجمہ کیا گیا وہ فارسی اور رومن اردو میں چھپوایا گیا اور پھر پنجابی زبان میں بھی اِن کا ترجمہ کیا گیا۔ زبور کا اردو ترجمہ جو کہ منظوم کیا گیا وہ مغربی راگوں کے ساتھ گایا جاتا تھا اِس لیے زیادہ مقبول نہ ہو سکا۔ اِسکی عدم پسندیدگی کی وجہ سے ڈاکٹر امام دین نے زبور کی کتاب کو پنجابی شاعری میں ڈھالا۔ جسکا نام ''پنجابی زبور، دیسی راگاں وچ'' رکھا گیا۔ یہ رومن پنجابی کا ترجمہ 1906میں چھاپا گیا۔ پھر اِس کے بعد پنجابی بولنے اور سمجھنے والوں کے یہ اِس کا تیسرا ترجمہ پرشین پنجابی میں چھپوایا گیا۔ جو عوام میں اس قدر مقبول ہوا کہ اُسی سال سیالکوٹ کنوینشن میں اِس کی دو ہزار جلدیں ہاتھوں ہاتھ بک گئیں۔ پنجابی زبور کی مقبولیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مشنریوں نے تمام زبوروں کا پنجابی زبان میں ترجمہ علاقائی دھنوں پر ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر امام دین نے اپنی تمام تر پاسبانی خدمات ہونے کے باوجود بھی اِس ذمہ داری کو قبول کیا، لیکن بعدازاں انہوں نے اِن خدمات میں وقفہ لیا۔ جس میں کل وقتی زبور کے ترجمہ کی خدمت کی۔ انہوں نے پاسبانی خدمت سے علیحدہ ہو کر پوری لگن کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ اِس میں مشنریوں نے اُن کے ساتھ بہت معاونت کی۔ آپ کی ضرورت اور آرام کا خاص خیال رکھا جاتا۔ یہاں تک کہ جس جگہ آپ بیٹھ کر کام کرتے تھے وہاں شور کرنا بالکل منع تھا۔ اُس زمانہ میں وقتی طور پر یہ قانون نافذ کیا گیا تھا کہ جس جگہ بیٹھ کر ڈاکٹر امام دین صاحب اپنا کام کیا کرتے تھے وہاں سے گزرنے والی سڑک پر کوئی بھی شخص چاہے وہ کوئی افسر ہی کیوں نہ ہو ایک مقررہ فاصلے سے اپنے گھوڑے یا بگھی سے اُتر کر پیدل اُس جگہ سے گزریں تاکہ گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سے ڈاکٹر امام دین کے کام میں خلل نہ پڑے۔ ڈاکٹر امام دین نے پورے دِل اور لگن اور مخلصانہ طریقہ سے کام کیا۔ 150زبوروں کو منظوم شاعری میں اور 405کی تعداد میں مختلف حصوں اور وزنوں میں رکھا۔ مگر اِس ترجمے میں یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ زبور کا پورا ترجمہ پنجابی میں ہے مگر زبور 119 کا دسواں حصہ اردو میں ہی چھاپ دیا گیا۔ اِس سارے کام میں مشنری خواتین بھی شانہ بشانہ رہیں۔ انہوں نے جب یہ کام پرنٹ ہو کر اُن کے پاس آ گیا تو اِس خدمت کا آخری حصہ اپنے ذمہ لگایا اور اِن زبوروں کی دھیں قریبی گاؤں میں سکھانے کے لیے رات دِن محنت کی۔ اِن تمام خدمات کے بعد ڈاکٹر امام دین نے اپنا دنیاوی سفر اقدرتی موت کے ساتھ ختم کیا۔ایک اچھی دوڑ دوڑنے کے بعد خدا کے اِس سُورما نے 1921ء میں اپنی دوڑ ختم کی۔ اِس کے بعد اُن کو بہت سے عزازات سے نوازا گیا۔ اُن کی تمام خدمات کو آج بھی سراہا جاتا ہے۔