نصرت فتح علی خان صاحب (شہنشاہِ قوال)
نصرت فتح علی خان صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں دنیا بھر میں ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے استاد نصرت فتح علی خان صاحب کو nfak، استاد اور شہنشاہِ قوال بھی کہا جاتا ہے۔۔۔۔!!
خان صاحب 13 اکتوبر 1948 کو پاکستان کے شہر فیصل آباد میں پیدا ہوئے، ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر یا انجینئر بنیں کیونکہ اس وقت قوالی اور فنکاروں کے پیشے کو کوئی معروف سماجی حیثیت نہیں دی گئی تھی۔ لیکن انھیں بچپن سے ہی قوالی کا شوق تھا۔۔۔۔!!
خان صاحب کی صرف ایک ہی بیٹی جس کا نام ندا نصرت ہے اور ان کا بھائی فرخ فتح علی جو کہ خان صاحب کے ساتھ ہارمونیم بجاتے تھے فرخ صاحب کا بیٹا راحت فتح علی خان جو کہ اپنی آواز کے جادو سے پوری دنیا پر راج کر رہا ہے۔۔۔۔!!
خان صاحب نے اپنے والد فتح علی خان صاحب سے طبلہ سیکھنا شروع کیا، لیکن اپنے والد کی وفات کے بعد، انھوں نے آواز کی موسیقی کی طرف رخ کر لیا، اور اس کی تربیت اپنے چچا مبارک علی خان اور سلامت علی خان سے حاصل کی۔۔۔۔!!
1971 میں اپنے چچا مبارک علی خان کی وفات کے بعد خان صاحب کو اپنی قوالی
پارٹی کے راہنما مقرر کیا گیا، انہوں نے قوالی پارٹی کے رہنما کے طور پر اپنی پہلی پرفارمنس ایک میوزک فیسٹیول جشن بہاراں میں پیش کی جس کا اہتمام ریڈیو پاکستان نے اسلام آباد میں کیا تھا۔
خان صاحب نے بالی ووڈ کی کچھ فلموں میں بھی گانے گائے جس میں ''دولہے کا سہرا، کوئی جانے کوئی نا جانے، زندگی جھوم کر، عشق کا رتبہ اور اس شانِ کرم کا کیا کہنا'' گا کر فلموں کو سوپر ہٹ کیا۔۔۔۔!!
خان صاحب کو 1987 میں Pride of Performance کا ایوارڈ ملا، 1998 میں PTV سے Life Time Achievement ایوارڈ ملا، 2001 میں Guinness World Record میں ان کا نام آیا، 2010 میں 50 خوبصورت آوازوں میں ان کا شمار ہوا اور ان کے 125 قوالی کے البمز ہیں۔۔۔۔!!
خان صاحب کے مشہور گیتوں میں '' تمھیں دل لگی بھول جانی پڑے گی، غم ہے یا خوشی ہے تو، سوچتا ہوں، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، میرے رشکِ قمر، آگ دامن میں لگ جائے گی، وگڑ گئی ہے تھوڑے دناں تو، آجا تینوں آکھیاں اڈیک دیاں، کسے دا یار نا وچھڑے، سجنا تیرے بنا اور سانسوں کی مالا وغیرہ شامل ہیں۔۔۔۔!!
16 اگست 1997 کو 48 سال کی عمر میں لندن کے ہسپتال میں دل کا دورہ پڑنے سے اس فانی دنیا سے اپنے چاہنے والوں کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔