سوسئیر، ممتاز ماہر لسانیات
بیسویں صدی کا ممتاز ماہر لسانیات سوسئیر26نومبر 1857کو اپنے آبائی شہر جنیوا میں پیدا ہوا۔ اس نے اپنی تعلیم جرمنی اور فرانس سے مکمل کی اور تمام امتحانا ت میں امتیازی کامیابی حاصل کی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے جنیوا یو نیورسٹی میں تدریسی خدمات پر مامور کیا گیا۔یہیں سے اس کے لسانی نظریات اور شعبہ لسانیات میں اس کے انقلابی تصورات کا آغاز ہوا۔اسے جدید لسانیات کا موجد اور باوا آدم قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی علمی،ادبی اور لسا نی خدمات کے اعتراف میں جنیوا یونیورسٹی میں اس کے نام کی چئیر کا قیام عمل میں لایا گیا جس پر وہ زندگی بھر مسند نشیں رہا۔ سوئٹزر لینڈ کے اس نامور دانشور نے پوری دنیا کو لسانیات میں اپنے انقلابی تصورات سے حیرت زدہ کر دیا۔اس نے زندگی بھر فروغ علم و ادب کے لیے اپنی جدو جہد کو جاری رکھا۔اس کے افکار کی تابانیوں اور تصورات کی ضیاپاشیوں سے تقلید کی تاریکیاں کافور ہو گئیں،افکار تازہ کی نوید سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات پیدا ہونے لگے اور لسانیات میں نئے مباحث کے دروازے کھلنے لگے۔22فروری 1913کو جدید لسانیات کے اس عظیم مفکر نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔اس کی وفات سے جدید لسانیات کو ایک منفرد اسلوب کے حامل بے باک اور انقلابی فاضل سے محرومی کا صدمہ سہنا پڑا۔
لوح مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
سوسئیر زندگی بھر ستائش،صلے اور نمود و نمائش سے بے نیازتدریسی خدمات میں مصرو ف رہا۔اس کی زندگی میں اس کی کوئی با ضابطہ تصنیف شائع نہ ہو سکی اور نہ ہی کسی کتاب کا کوئی مسودہ مرتب ہو سکا۔اس کی وفات کے بعد اس کے رفقائے کار اور شاگردوں کی مدد سے اس کے کلاس لیکچرز کو جمع کیا گیا ان کی بہ غو ر چھان پھٹک اور تحقیق کے مراحل سے گزارنے کے بعد انھیں کتابی شکل میں 1916میں شائع کیا گیا۔یہ کتاب Course in General Linguistics کے نام سے پوری د نیامیں مشہور ہوئی اور اسے جدید لسانیات کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔اس کا شمار بیسویں صدی کی اہم ترین لسانی تصانیف میں ہوتا ہے جن کے معجز نما اثر سے فکر ونظر کی کایا پلٹ گئی اور جس کی باز گشت اب تک علم و ادب کے ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔ سوسئیر کی یہ تصنیف اب تک انسانی تہذیب و ثقافت،ادب و لسانیات اور فلسفہ کی سب سے زیادہ مطالعہ کی جانے والی کتب میں شمار ہوتی ہے۔نشاتہ الثانیہ کے دور سے لے کر اب تک جتنی بھی وقیع تصانیف منظر عام پر آئی ہیں ان میں سے چشم کشا بیانات،فکر پرور خیالات،رجحان ساز تصوارات اور لسانیات کے انقلابی نظریات کے اعتبار سے سوسئیر کی یہ تصنیف کلیدی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔