جوزفین بیکر(غربت سے شہرت کا سفر کرنے والی سیاہ فام)

جوزفین بیکر کا اصل نام فریڈا جوزفین میکڈونلڈ تھا۔ وہ نا صرف 20ویں صدی کی سب سے مشہور ثقافتی شخصیات میں شامل ہو گئیں بلکہ ’برونز وینس‘ کے نام سے جانی جانے والی یہ خاتون دوسری عالمی جنگ میں ایک ہیروئین بن کر اْبھریں اور اپنی زندگی کے دوسرے حصے میں سماجی حقوق کی کارکن کی حیثیت سے کام کیا۔وہ امریکی ریاست مزوری کے علاقے سینٹ لوئس میں 3 جون 1906 کو پیدا ہوئیں اور انھوں نے بچپن سے ہی مشکلات دیکھیں۔ اْن کے والد بار میں ڈرم بجاتے تھے اور اپنے خاندان کو چھوڑ کر چلے گئے تھے جس کے بعد اپالاچیان قبیلے سے تعلق رکھنے والی اْن کی سیاہ فام والدہ برتن مانجھ کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتیں۔
جوزفین نے آٹھ برس کی عمر سے کام شروع کیا اور انھیں بہت تکلیفیں سہنی پڑیں۔ جب وہ 14 سال کی ہوئیں تو اْن کی دو بار شادی اور علیحدگی ہو چکی تھی۔ انھوں نے ”بیکر“ نام اپنے دوسرے شوہر سے ہی حاصل کیا۔لڑکپن میں وہ اتنی غریب تھیں کہ انھیں سڑک پر رہنا پڑا اور کھانے کے لیے کچرے میں پڑے ڈبوں کا رْخ کرتیں۔ انھوں نے ایک بار کہا تھا کہ رقص کی شروعات انھوں نے اس لیے کی تا کہ وہ سینٹ لوئس کی ٹھنڈی سڑکوں پر خود کوٹھنڈ سے محفوظ رکھ سکیں۔
لیکن باصلاحیت اور کرشماتی شخصیت کی بنا پر جوزفین نے جلد ہی ایک ورائٹی گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے ایک رقاص گروہ دی ڈکسی سٹیپرز میں کام کرنا شروع کیا جس کے باعث انھیں سنہ 1919 میں نیو یارک منتقل ہونے کا موقع ملا۔
اور یہی وہ جگہ ہے جہاں پر نئے ہنر کی بھرتی کرنے والے ایک شخص نے انھیں دیکھا۔ یہ شخص ایک شو کے لیے فنکاروں کو تلاش کر رہا تھا جو کہ فرانس کے شہر پیرس جا کر پرفارم کر سکیں۔ یہ شو مکمل طور پر سیاہ فام فنکاروں پر مبنی تھا۔
ایک ہزار ڈالر کی تنخواہ کے وعدے پر بیکر نے فرانس کا رْخ کیا جہاں اْن کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔اپریل 1926 میں وہ اْس وقت شہرت کی بلندی پر پہنچ گئیں جب انھوں نے صرف 19 برس کی عمر میں پیرس کے ایک معروف کیبرے ہال میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
اُنھوں نے پیرس کے عمومی کیبرے سے ہٹ کر ایک بالکل نیا شو پیش کیا جس نے ناظرین کو حیران کر دیا اور انھیں شائقین نے 12 مرتبہ کھڑے ہو کر داد دی۔اسی ڈانس نے اْنھیں سٹار بنا دیا۔اْنھوں نے نہ صرف تھیٹر میں ایکٹنگ اور ڈانس کیا بلکہ چار فلموں میں بھی کام کیا جبکہ ایسا کرنا اْس وقت کسی سیاہ فام فنکار کے لیے غیر معمولی بات تھی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک سیاہ فام عورت کی حیثیت سے انھوں نے جو کچھ حاصل کیا، وہ امریکہ میں رہتے ہوئے نہیں کرسکتی تھیں۔بیکر کو جو چیز دوسروں سے الگ کرتی تھی وہ اْن کی سوچ تھی۔انھوں نے کبھی کسی چیز کو ناممکن نہیں سمجھا۔ وہ ایسی چیزیں کر رہی تھیں جو کہ وقت سے قبل تھیں اور اْس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ ناکام ہوں گی۔
بیکر صرف سٹیج پر بہادر نہیں تھیں بلکہ اصل زندگی میں بھی وہ نڈر تھیں۔فیشن کی دنیا میں اْن کا نام تھا اور وہ ایک آئیکون کے طور پر جانی جاتی تھیں۔ بہت سے لوگوں کو یاد ہے کہ فرانس کے دارالحکومت میں چہل قدمی کرتے ہوئے اْن کے ساتھ اْن کا ایک غیر معمولی پالتو جانور، یعنی ایک چیتا بھی ہوتا تھا۔اُن کے کپڑے بدلنے کے کمرے میں بھی بہت سے جنگلی جانور ہوتے تھے یہاں تک کہ ایک سانپ بھی شامل تھا۔
انھوں نے فرانس کے سیاہ فام لوگوں کے بارے میں دقیانوسی تصورات کو پہلے اپنایا اور پھر اْن لوگوں کی سوچ کو بدلا۔ اُس وقت تک لوگ سیاہ فام لوگوں کو افریقی ثقافت سے جوڑ کر دیکھتے تھے۔
لیکن بیکر نے سب سے زیادہ بہادری کا مظاہرہ اْس وقت نسلی بنیادوں پر علیحدگی کی پالیسیوں کے خلاف کھڑے ہو کر کیا۔اُنھوں نے اصرار کیا کہ اُن کے شوز میں تمام لوگوں کو آنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اپنے کئی امریکی دوروں میں اُنھوں نے ایسی جگہوں پر پرفارم کرنے سے انکار کر دیا جہاں سیاہ فام افراد کو داخلے کی اجازت نہیں ہوا کرتی تھی۔جوزفین بیکر لاس ویگاس میں نسلی علیحدگی کی پالیسی توڑنے والی پہلی شخص تھیں اور ایسا انھوں نے معروف سیاہ فام فنکار فرینک سیناٹرا اور سیمی ڈیوس جونیئر سے بھی پہلے کیا۔
لیکن بیکرکا نام اور شہرت نے بھی انھیں نسل پرستی سے نہیں بچایا۔امریکہ میں کچھ ہوٹلوں اور ریستورانوں نے انھیں اندر نہیں آنے دیا اور 1951 میں حکومت اور ایف بی آئی نے نیو یارک کے سٹورک کلب کے مالک کی مبینہ نسل پرستی پر تنقید کی وجہ سے انھیں ناپسندیدہ لوگوں کی فہرست میں شامل کردیا۔اِس واقعہ کی وجہ سے فرانس میں اْن کی شہرت میں اضافہ ہوا اور انھوں نے لوگوں کے دل جیتے۔ اب انھیں پیرس کے پینتھیون میں جگہ دی جا رہی ہے۔
جوزفین بیکر کو پیرس میں پینتھیون میں ایک یادگار اور اْن کے نام کی ایک تختی سے نوازا گیا ہے۔ فرانس کے دارالحکومت میں پینتھیون وہ جگہ ہے جہاں پر فرانس کی تاریخ میں شامل عظیم شخصیات کے مزار ہیں۔ جن میں والٹائر، وکٹر ہیوگو، میری کیوری اور زین زاکیاس روزیو جیسے نام شامل ہیں۔جوزفین بیکر تاریخ میں چھٹی خاتون اور سیاہ فام برادری کی پہلی خاتون ہیں جنھیں اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو بیکر نے وہ کیا جو بہت سے معروف اور بڑے فلمی ستاروں اور شخصیات نے بھی نہیں کیا۔ انھوں نے اداکاری اور رقص کے ملبوسات چھوڑ کر فوجی وردی پہن لی۔اس طویل جنگ کے دوران انھوں نے فرانس کی ایئر فورس میں ویمن آگژلری ونگ میں سیکینڈ لیفٹیننٹ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنی شہرت کا استعمال اتحادی افواج کے لیے جاسوسی کر کے بھی کیا۔
اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے اور سفارت خانوں کی پارٹیز میں شرکت کر کے انھوں نے دشمن کی فوجی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات اکٹھی کر کے پہلے فرانسیسی حکام کو فراہم کیں اور پھر فرانس پر نازیوں کے قبضے کے بعد اُنھوں نے نہ دکھائی دینے والی روشنائی کے ذریعے یہ معلومات مزاحمتی فورسز تک پہنچائیں۔فرانس کے سابق صدر چارلس ڈی گال نے انھیں اْن کی خدمات پر ملک کا سب سے اعلیٰ اعزاز لیجن آف آنر اور تمغہ مزاحمت دیا۔بیکر کی زندگی کے ایک اور حصے کو لوگ بہت سراہتے ہیں جو کہ بطور شہری حقوق کارکن کام کرنے کا ہے۔سنہ 1963 میں امریکہ کے اس وقت کے اٹارنی جنرل رابرٹ کینیڈی کی مدد سے امریکہ واپس آنے کے بعد انھوں نے واشنگٹن میں ہونے والے مشہور مارچ میں شرکت کی جس میں شہری حقوق تحریک کے رہنما ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ بھی شامل تھے جنھوں نے امریکی تاریخ میں زبردست اہمیت کی حامل تقریر ’میرا ایک خواب ہے‘ کی تھی۔
فرانسیسی فوجی وردی میں ملبوس بیکر وہ واحد خاتون تھیں جنھوں نے اس اجلاس میں تقریر کی۔انھوں نے کہا آپ سب لوگوں کو پتا ہے کہ میں نے ہمیشہ مشکل راستہ چْنا۔ میں نے کبھی آسان راستہ اختیار نہیں کیا۔ جیسے جیسے میری عمر میں اضافہ ہوا مجھے اس بات کا علم ہوا کہ میرے اندر وہ طاقت اور ایسا حوصلہ ہے جس سے میں اس مشکل راستے کا چناؤ کر سکتی ہوں۔ میں نے مشکل راستے کو چنا اور اسے دوسروں کے لیے آسان بنانے کی کوشش کی ہے۔
فرانس میں اپنی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا میں چاہتی ہوں کہ آپ لوگوں کو بھی وہ سب کچھ حاصل کرنے کا موقع ملے جو کہ مجھے ملا۔
بیکر نے نہ صرف نسل پرستی اور مذہبی تفریق کے خلاف آواز بلند کی بلکہ اپنے عمل سے بھی اپنے مؤقف کا اظہار کیا۔ سنہ 1937 میں انھوں نے یہودی مذہب قبول کیا تاکہ وہ صنعتکار ژاں لائن کے ساتھ شادی کر سکیں۔ جس کے بعد انھیں فرانسیسی شہریت دی گئی۔یہ شادی صرف ایک سال چل سکی اور ایک دہائی بعد انھوں نے ایک اور سفید فام شخص جو بوائلون سے شادی کی اور اس جوڑے نے نو مختلف شہریتوں اور نسلوں کے بچوں کو بھی گود لیا۔ اپنے خاندان کو انھوں نے ’رینبو ٹرائب‘ کا نام دیا۔
بوائلون سے طلاق کے بعد انھوں نے اپنے ’ٹرائب‘ میں تین مزید بچوں کو گود لیا اور تنہا اُن کی پرورش کی۔ جوزفین ایک وقت میں دنیا کی امیر ترین سیاہ فام خاتون تھیں لیکن بعد میں وہ دیوالیہ ہو گئیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری برس ایک اور امریکی فنکار گریس کیلی کی امداد سے موناکو میں گزارے۔ گریس اس چھوٹی سی یورپی ریاست کی شہزادی تھیں۔
سنہ 1975 میں سٹروک کے باعث وفات پانے کے بعد انھیں موناکو میں دفنا دیا گیا تاہم اُنھیں فرانس میں بعد از وفات فوجی اعزاز دیے گئے۔

Daily Program

Livesteam thumbnail