آئن سٹائن، کامیابی مگر کیسے؟
یہ 14مارچ 1879ء کی بات ہے جرمنی کے شہر ”الم“ میں ایک بچے کی پیدائش ہوتی ہے عام طور پر ہر بچہ اپنی پیدائش کے بعد دو سے تین سال میں بولنا شروع کر دیتا ہے۔مگر اس کی زندگی کا آغاز نہایت عجیب قسم کا تھا۔وہ چار سال کی عمر تک بولنا شروع نہ کر سکاتھا۔دیکھنے میں بظاہر وہ ایک معمولی بچہ تھا جس کے ماں باپ بھی ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔سکول سے تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا اسے سکول سے نکال دیا گیا اساتذہ کا خیال تھا یہ بچہ اپنی تعلیمی نا اہلی کا اثردوسرے بچوں پر بھی ڈالے گا اس طرح سے اسے سکول سے خارج کر دیا گیا۔یہاں سے ایک نئی زندگی کا آغاز ہونے جا رہا تھا اس معمولی سے بچے نے محنت کرنے کی ٹھانی وہ دن رات محنت کرتا رہا۔ اس نے 1905ء میں زیورچ یونیورسٹی سے ڈاکٹریت کی ڈگری حاصل کر لی۔اس کے باوجود وہ کوئی اچھی نوکری نا حاصل کر سکا۔اسی برس اس نے خصوصی اضافیت،روشنی سے پیدا ہونے والے برقیاتی اثرات اور براؤنین حرکت کے نظریہ پر مقالات شائع کروائے۔ 1913ء برلن یونیورسٹی کی طرف سے اسے پڑھانے کی نوکری مل گئی۔فقط چند برسوں بعد وہ اضافیت کا عمومی نظریہ وضع کرنے میں کامیاب ہو گیا۔1921ء میں اس کی خدمات کے عوض اسے نوبل انعام سے نوازا گیا۔دنیا آج اس معمولی بچے کو آئن سٹائن کے نام سے جانتی ہے۔اگرچہ آئن سٹائن کی وجہ شہرت اضافیت کے نظریات اور اس کے دیگر نظریات نے بھی اس کو مقبولیت دوام عطا کی۔ روشنی کی ہیئت کے بارے آئن سٹائن کا خیال مختلف تھا۔ روشنی کو موج سمجھا جاتا تھا، مگر اس سے کچھ تجرباتی نتائج کی تشریح کرنا ممکن نہ تھا۔ آئن سٹائن نے اس نظریے کو تقویت دی کہ روشنی کو چھوٹے چھوٹے نوریہ زرات (photons) پر مشتمل بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ نوریہ کا نظریہ سب سے پہلے میکس پلینک نے
پیش کیا۔ّآئن سٹائن نے اپنے اس نظریے کو ثابت کر دکھایا۔
آئن سٹائن کا دوسرا مقالہ براؤنین حرکت (Brownian motion) کا ریاضی ماڈل تھا، جس میں احصاء کا استعمال کرتے ہوئے سالمہ کی مائع میں حرکت کی تشریح کی گئی تھی۔ اس سے اس نظریہ کو عام کرنے میں مدد ملی کہ جوہر اور سالمہ کا وجود حقیقی ہوتا ہے۔
آئن سٹائن تیسرا مقالہ اس کی مشہور مساوات E=mc2 تھی، جس میں مادہ اور توانائی کا آپس میں تبدیل ممکن ہونے کا بتایا گیا تھا۔
چوتھا مقالہ خصوصی اضافیت (special theory of relativity) پر تھا۔ اس سے وقت اور فضاء کو علیحدہ علیحدہ تصور کرنے کی بجائے ''وقت۔فضاء یا ''زمان و مکاں '' (space-time) کا نظریہ سامنے آیا۔ پتہ چلا کہ اگر کوئی چیز زیادہ (مگر یکساں) سمت سے حرکت کر رہی ہو، تو جس مشاہد کے حوالے سے حرکت ہو رہی ہو گی، اس مشاہد کو اس چیز کی کمیت زیادہ، لمبائی کم، اور وقت آہستہ گزرتا، نظر آئے گا۔ البتہ روشنی کی رفتار ہر کو ایک ہی (تقریباًً \ 3 \times 108 metres/second) نظر آئے گی۔ اور یہ بھی کہ کوئی مادہ چیز کو تیز رفتار کرتے ہوئے روشنی کی رفتار تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اور یکساں (uniform) سمت سے سفر کرنے والے جمودی حوالہ جاتی قالب (inertial frame of reference) میں کوئی ایسا تجربہ ممکن نہیں جس سے جمودی حوالہ جاتی قالب میں موجود مشاہد یہ معلوم کر سکے کہ وہ یکساں سمتار سے سفر کر رہا ہے یا ''ساکن'' ہے۔اس کے نظریات نے ایک نا ختم ہونے والے تنازعات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔اس سے پہلے کسی سائنس دان کے نظریات پر اس قدر تنازعات پیدا نہیں ہوئے تھے۔لیکن آئن سٹائن اپنے نظریات پر ڈٹا رہا اور وقت نے ثابت کیا کہ وہ ٹھیک تھا۔
آئن سٹائن یہودی تھا،ہٹلر کے بر سر اقتدار آتے ہی جرمنی میں اسکا رہنا مشکل ہو گیا تھا۔1933ء میں اس نے ہٹلر کا جرمنی چھوڑ دیا اور امریکا میں نیو جرسی میں سکونت پذیر ہو گیایہاں انسٹیوٹ آف ایڈوانس سٹڈیز میں کام کرنے لگا۔یہاں تک کہ 1940ء میں اسے امریکی شہریت مل گئی۔بات صرف ہٹلر کا جرمنی چھوڑ دینے پر ہی ختم نہیں ہوئی تھی ہٹلر حکومت نے اعلان کیا جو شخص آئن سٹائن کا سر کاٹ کر لائے گا اس کو 20ہزار مار اک(انعام)دیا جائے گا۔اس زمانے میں یہ رقم بہت زیادہ تھی۔مگر آئن سٹائن کی عظمت کا احساس لوگوں کے دلوں پر ایسے قائم ہو چکا تھا کہ کسی نے یہ انعامی رقم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔اپنی بقیہ نصف زندگی کے دوران آئن سٹائن کو عالم گیر شہرت حاصل ہوئی۔اس کا شمار دنیا کے مقبول ترین سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔وقت نے ثابت کیا بڑا انسان بننے کے لئے کسی بڑے انسان کے گھر پیدا ہونا ضروری نہیں تاریخ اس طرح کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے لاتی ہے۔ معمو لی حیثیت سے آغاز کر کے آدمی بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔بشرطیکہ وہ جدوجہد کی شرائط پر پورا اترے۔بڑا انسان مشکل مواقع پر اپنی لگن اور محنت سے قابو پا کر ہی بڑا انسان بنتا ہے۔دراصل مشکل حالات ہی عملی محرک بنتے ہیں پیچیدہ ترین صورتحال ہی انسان کی پوشیدہ صلا حیتیوں کو بیدار کرتی ہے۔ہمیشہ زندگی کے بہترین سبق بد ترین قسم کے حالات میں ہی ملتے ہیں۔اس دنیا میں امکانات کی کوئی حد نہیں اگر زندگی کا آغاز معمولی حالات سے ہو رہا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ساری زندگی انھی حالات میں بسر ہونے والی ہے۔تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے جن لوگوں نے زندگیوں کے رخ یکسر بدلے ہیں انھیں بھی کامیابی کی
کنجی نا مساعد حالات میں ہی تلاش کرنا پڑی ہے۔اس کا انحصار آپ پر ہے آپ مصائب اور طوفانوں میں آگے بڑھ کر کامیابی کی سیڑھی تھامتے ہیں یا مایوس ہو کر موقع گنوا بیٹھتے ہیں۔کامیابی
آپ کے سامنے ہے لیکن یہ کبھی بھی آسان راستوں پر چل کر نہیں ملتی۔تو کیا آپ تیار ہیں۔۔۱