ڈیجیٹل دْنیا سے پہلے لوگوں کے سادہ کھیل
یہ ذکر ہے اْس نسل کے بچوں کا جس نے حقیقی معنوں میں بچپن جیا ہے۔ یہ جھلک ہے اْن لوگوں کے بچپن کی جو نانیوں، دادیوں سے کہانیاں سن کر جوان ہوئے اور یہ تصویر ہے اْن کے ماضی کی،جن کا بچپن ڈھیر ساری خوشیوں، سنہری یادوں،نہ ختم ہونے والے ہنسی مذاق، شرارتوں اور کھیل کود سے عبارت ہیں۔ وہ بھی کیا دن تھے۔ جب شام بھی ہوا کرتی تھی۔ کہ اب تو صبح کے بعد سیدھی رات ہو جاتی ہے۔ بچپن کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ جیسے جیسے انسان جوانی یا شعور کی طرف بڑھتا ہے۔ اسے اپنا ماضی، اپنا بچپن، بے فکری کا زمانہ شدت سے یاد آنے لگتا ہے۔ یہ بچپن تو بے فکری کا ہی دور ہوتا ہے۔ لیکن آج کی نسل کا بچپن ہم سے اور ہم سے پہلی نسلوں کے بچپن سے بالکل مختلف ہے۔ کہ آج کے دور میں بچے تو نظر آتے ہیں لیکن ان میں بچپن بالکل نظر نہیں آتا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پہلے دور میں سمارٹ فونز،سوشل میڈیا،انٹرنیٹ،ڈیجیٹل گیمز، آن لائن گیمز وغیرہ کا روجحان نہیں تھا۔وہ لوگ موبائل فونز ہاتھوں میں لیے آن لائن کارٹونز دیکھتے ہوئے نہیں حقائق پر مبنی سبق آموز کہانیاں سنتے سنتے نیند کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔
اسی زمانے میں کچھ ایسی کھیلی ہوتی تھیں جنہیں کھیلتے کھیلتے کب بچپن پرِ لگا کر اْڑ گیا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ اْن میں آنکھ مچولی، اونچ نیچ، چھپن چھپائی،پکڑم پکڑائی،کھو کھو اور پٹھو گرم شامل ہیں۔
آنکھ مچولی کا شمار ان کھیلوں میں ہوتا ہے جو ہماری اور ہم سے پہلے آنے والی ہر نسل میں یکساں مقبول رہا۔آنکھ مچولی نہ صرف بچے بلکہ بڑی لڑکیاں بھی کھیلتی تھی۔جب گرمیوں یا سرما کی چھٹیوں میں سارے کزن نانی دادی کے گھر اکٹھے ہوتے تو عموما یہ کھیل گھر کے کسی چھوٹے کمرے میں سب مل کر کھیلتے۔جس کو باری دینی ہوتی اْس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی۔ اس مقصد کے لیے عموما خالہ یا پھوپھی کا ڈوپٹہ استعمال ہوتا۔ پٹی اس قدر مضبوطی سے باندھ دی جاتی کے باری دینے والے جسے عام الفاظ میں چور کہتے تھے اس کا سر ہی چکرا جاتا۔ یہی نہیں تسلی کے لیے چور کے سامنے انگلیوں کا اشارہ کر کے پوچھا جاتا کہ یہ کتنی ہے۔جس کا مقصد یہ جاننا ہوتا تھاکہ کہیں اْسے کچھ نظر تو نہیں آرہا۔وہ بچے جو چالاکی سے بندھی پٹی میں سے دیکھ رہے ہوتے تھے جان بوجھ کر انگلیوں کی تعداد غلط بتا دیتے کہ ان کی چوری پکڑی نہ جائے۔کھیل شروع ہوتا تو بچوں کاٹولہ چور کو ہاتھ لگا لگا کر تنگ کرتے اور جو بھاگتے ہوئے چور کے ہاتھ لگ جاتا بس باری اْسی کے سر آجاتی اور یوں یہ کھیل جاری رہتا۔
اونچ نیچ یہ کھیل عموماً گھر کے صحن، کمروں کے اندر، گلی محلوں، سکول یا کسی ایسی جگہ کھیلا جاتا،جہاں اْوپر چڑھنے، کھڑے ہونے اور بھاگنے کی جگہ ہوتی۔ اس کھیل میں باری دینے کا فیصلہ کچھ اس طرح ہوتا،کہ تمام بچے کھڑے ہو جاتے ہیں ان میں سے ایک بچہ بلند آواز سے اونچ نیچ کا پہاڑ۔۔ سچے موتیوں کا ہار۔۔ مالی دیکھ رہا ہے۔۔پہلے کون پگتا ہے۔ کہتا تھا جس پر یہ الفاظ ختم ہوتے اسے باری دینا پڑتی۔ کھیل شروع ہونے سے قبل ہی اونچ کا فیصلہ ہوجاتا کہ صرف ان مقررہ جگہوں پر ہی چلنا ہے۔کھیل کے دوران تمام بچے اپنی جگہ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اور چور نیچ یعنی زمین پر چوکنا کھڑا رہتا جیسے ہی کوئی جگہ بدلتا۔ چور جلدی سے پکڑتا اگر ہاتھ لگا لیتا تو اس کی باری ختم ہوجاتی اور پکڑے جانے والاباری دیتا۔
چھپن چھپائی یہ کھیل نہ صرف ہمارے معاشرے میں بلکہ مغرب میں بھی بہت مقبول ہے جو(Hide and seek)کے نام سے مشہور ہے۔اور دنیا بھر کے بچوں کا پسندیدہ کھیل سمجھا جاتا ہے۔ پہلے دور میں جب یہ کھیل کھیلا جاتا تو اس میں چور کا فیصلہ پگم سے ہوتا۔جو بچ جاتا وہ دام دیتا یعنی باری دیتا۔ چور کو ایک کونے میں جا کر مقررہ تعداد تک گنتی گنیں ہوتی۔ اس دوران کھیل میں شامل بچے کو نے،گاڑیوں کے نیچے، درختوں کے پیچھے، کیاریوں کے اندر، نہ جانے کہاں کہاں جا کر چھپ جاتے۔ باری دینے والا گنتی مکمل کر کے زور سے آواز لگاتا میں آ رہا ہوں اور یہ نعرہ لگا کر ساتھیوں کی تلاش شروع کر دیتا جو سب سے پہلے پکڑا جاتا ہے اور اسے دیکھتے ہیں ایمپریس کہتا پھر اس کی باری شروع ہوجاتی۔
پکڑم پکڑائی ہر دور کے بچوں کا پسندیدہ اور آسان ترین کھیل رہا ہے۔ اس میں باری دینے والے کا فیصلہ یا تو پگم سے،یا ان پِن،سیفٹی پِن۔۔اِن پِن آوٹ۔۔کھیلنا ہے تو کھیلوورنہ گیٹ آوٹ کہہ کر ہوتا۔ کھیل شروع ہونے سے پہلے چور یا باری دینے والا ایک جگہ کھڑا ہو کر ایک سے دس تک گنتی گنتا تاکہ سارے بچے دور پہنچ جائیں جب گنتی ختم ہوتی تو جو بھاگتے بچوں میں سے جو پہلے ہاتھ آجاتا اگلی باری اسے دینا پڑتی۔
یقینا بچپن کے دن بھی کتنے سہانے تھے اور انور مسعود نے بھی بچپن کے حوالے سے کیا خوب کہا کہ
کیا بچے سلجھے ہوتے تھے۔۔جب گیند سے الجھے ہوتے تھے۔۔وہ اس لئے مجھ کو بھاتے ہیں۔۔ دن بیتے یاد دلاتے ہیں۔۔وہ کتنے حسین بصیرت تھے۔۔جب دور غموں سے ڈیرے تھے۔۔جو کھیل میں حائل ہوتا تھا۔۔ نفرین کے قابل ہوتا تھا۔۔ہر اک سے الجھ کر رہ جانا۔۔ رْک رْک کے بہت کچھ کہہ جانا۔۔ہنس دینا باتوں، باتوں پر۔۔برسات کی کالی راتوں پر۔۔ بادل کی سبک گرفتاری پر۔۔ بلبل کی آہ و زاری پر۔۔ اور شمع کی لو کی گرمی پر۔۔ پروانوں کی ہٹ دھرمی پر۔۔ دنیا کے دھندے کیا جانے۔۔ آزاد یہ پھندے کیا جانے۔۔ معصوم فضا میں رہتے تھے۔۔ ہم تو یہ سمجھ ہی بیٹھے تھے۔۔ خوشیوں کا الم انجام نہیں۔۔ دنیا میں خزاں کا نام نہیں۔۔ ماحول نے کھایا پھر پلٹا۔۔ناگاہ تغیر آجھپٹا۔۔ اور اس کی کرم فرمائی سے۔۔ حالات کی ایک انگڑائی سے۔۔ آپہنچے ایسے بیڑوں میں۔۔ جو لے گئے ہمیں تھپیڑوں میں۔۔ بچپن کے سُہانے سائے تھے۔۔ سارے میں ذرا ستائے تھے۔۔ وہ دور مقدس بیت گیا۔۔ یہ وقت ہی بازی جیت گیا۔۔اب ویسے مرے حالات نہیں۔۔ وہ چیز نہیں،وہ بات نہیں۔۔ جینے کا سفر اب دو بھر ہے۔۔ہر گام پہ سو، سو ٹھوکر ہے۔۔ وہ دل جو روحِ قرینہ تھا۔۔ آشاؤں کا ایک خزینہ تھا۔۔ اس دل میں نہاں اب نالے ہیں۔۔ تاروں سے زیادہ چھالے ہیں۔۔ جو ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے۔۔ رونے کو چھپانا ہوتا ہے۔۔ کوئی غنچہ دل میں کھلتا ہے۔۔ تھوڑا سا سکون جب ملتا ہے۔۔ غم تیز قدم پھر بھرتا ہے۔۔ خوشیوں کا تعاقب کرتا ہے۔۔ میں سوچتا رہتا ہوں یوں ہی۔۔ آخریہ تفاوت کیا معنی۔۔ یہ سوچ عجب تڑپاتی ہے۔۔ آنکھوں میں نمی بھر جاتی ہے۔۔ پھر مجھ سے دل یہ کہتا ہے۔۔ ماضی کو تْوکیوں روتا رہتا ہے۔۔ کچھ آہیں د بی سی رہنے دے۔۔ کچھ آنسو باقی رہنے دے۔۔ یہ حال بھی ماضی ہوتا ہے۔۔ اس پر بھی تجھے کچھ رونا ہے۔۔
کبھی کبھار کس قدر دل چاہتا ہے نہ کہ اے کاش!ہمارے پاس کوئی ٹائم مشین ہوتی جس کے ذریعہ محض چند لمحوں کے لئے ہی سہی مگر ہم ماضی میں لوٹ سکتے۔ ایسی دنیا میں جہاں زندگی مسکراتی اور بے فکر نظر آتی تھی۔ جہاں نہ زمانے کا خوف تھا نہ لوگوں کا،کہ لوگ کیا کہیں گے۔