دنیا ایمانداروں کیلئے عارضی جگہ!
”لیکن ہمارا وطن آسمان پر ہے۔اور ہم وہیں سے نجات دہندہ خداوند یسوع مسیح کی راہ تکتے ہیں۔ جس قدرت سے سب چیزوں کو اپنے تابع کر سکتا ہے اْس کی تاثیر کے مطابق وہ ہمارے پست حال کی شکل بدل کر اپنے جلالی بدن کی صورت پر بنائیگا۔“(فلیپیوں 21-20:3)
ان آیات میں ایماندار کی زندہ اُمید کو بیان کیا گیا ہے۔کیا شاندار مستقبل ہے! کیا دولت ہے! ان آیات میں پہلی سچائی یہ ہے کہ ہمارا وطن آسمان پر ہے اس کا مطلب ہے کہ ہماری شہریت (Nationality) آسمانی ہے۔ یہاں زمین پر ہم پردیسی، اجنبی اور جلا وطن ہیں۔مقدس پطرس رسول ایمانداروں کو دُنیا میں مسافر کہتا ہے۔ایماندار دنیا کے لوگوں کے ساتھ جہاں وہ اجنبی ہے اُن کی بھلائی، نجات اور برکت کیلئے اُن کے ساتھ گہرے اور قریبی رشتہ کے ساتھ وفاداری سے رہنے والا شخص ہے مگر اُسے یادرہتا ہے کہ اُس کا اصل ملک آسمان ہے۔جس کا ذکر مکاشفہ 21 اور 22 باب میں موجود ہے۔ ان آیات میں دوسری سچائی یہ ہے کہ ہمارا منجی خُداوند یسوع مسیح آسمان سے پھر آنے والا ہے۔ یہ اُس کا ہم سے وعدہ ہے۔ یہ ہماری جلالی اُمید ہے جو ہم میں زندہ رہتی اور ہماری طاقت ہے۔ تیسری سچائی یہ ہے کہ ہم مسیح کی آمد کے منتظر ہیں یعنی دُنیا ہمارے لیے انتظار گاہ ہے۔ اگر ایماندار میں مسیح کی آمد کا انتظار نہیں تو وہ روحانی طور پر مر چکا ہے یا اُس نے دُنیا کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔ چوتھی سچائی یہ ہے کہ یسوع مسیح اپنی آمد پر ہمارے پست حالی کے بدن کو جلالی بدن میں بدل دے گا۔ ہمارا آج کا فانی بدن جو بیمار،کمزور اور بوڑھا ہو جاتا ہے۔ ایک دن یہ یسوع ناصری کے جلالی بدن کی مانند بن جائے گا۔مقدس یوحنا رسول اپنے پہلے خط میں لکھتا ہے کہ:
”دیکھو کیسی محبت باپ نے ہم سے کی ہے کہ ہم خُدا کے فرزند کہلائے اور ہم ہیں بھی۔ دُنیا ہم کو اِس لیے نہیں جانتی کہ اِس نے اُس کو بھی نہیں جانا۔ اے پیارو!اب ہم خُدا کے فرزند ہیں۔ اور یہ تو اب تک ظاہر نہیں ہوا کہ ہم کیا کچھ ہوں گے۔پر ہم یہ جانتے ہیں کہ جب وہ ظاہر ہو گا تو ہم بھی اُس کی مانند ہوں گے۔ کیونکہ اُسے ویسا ہی دیکھیں گے جیسا وہ ہے۔“(1یوحنا2-1:3)
زندہ مسیح کا چہرہ کو جو ایسے چمکتا ہے جیسے تیزی کے وقت سورج موجودہ فانی یا پست حالی کے بدن کے ذریعہ نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس وجہ سے خُدا نے موسیٰ کو کہا کہ وہ اُسکا چہرہ نہیں دیکھ سکتا کیونکہ ”انسان مجھے دیکھ کر زندہ نہیں رہے گا“۔ اِس لئے مقدس پولوس رسول اُس کی ایک جھلک سے گرِ پڑا اور تین دن تک کچھ دیکھ نہ سکا کیونکہ اسکی آنکھیں چندھیا گئی تھیں۔ مگر جب اپنی آمد پر ہمیں اپنے جیسا جلالی بدن دے گا تو ہم اُسے ویسا ہی دیکھنے کے قابل ہوں گے جیسا وہ ہے۔ دنیا میں خود کو مسافر سمجھنا اور اس احساس میں زندگی گزارنا کہ دنیا میرا عارضی گھر ہے۔ میرا اصل وطن آسمان ہے۔ مسیح میں سچی روحانیت کی تیسری پہچان ہے جس سے ہر ایماندار ہر
قسم کے حالات میں،زندہ اُمید کے ساتھ ایمان کی دلیری سے ہشاش بشاش رہتا ہے۔ جو کہ ایماندار کی پہچان کا حصہ ہے۔ خد ا کرے کہ ہر ایک ایماندار خُداوند میں خوش رہنے کیلئے مسیح میں خدا کے فضل سے بھر جائے اور روح القدس کی طاقت پر انحصار کرے نہ کہ اپنی کسی زمینی دولت پر، نہ تعلقات پر، نہ انسان پر۔کیونکہ روح القدس کی قوت افضل ہے۔باقی سب کچھ فانی اور کھو کھلا ہے۔ لکھا ہے کہ:
”ہر بشر گھاس کی مانند ہے اور اُس کی ساری شان حشمت گھاس کے پھول کی مانند ہے۔گھاس تو سوکھ جاتی ہے اور پھول گرِ جاتا ہے لیکن خُداوند کا کلام ابد تک باقی رہتا ہے“۔ (1 - پطرس 24:1)
خدا کرے کہ ہم سب ایماندار اس دْنیا کو اپنے لئے عارضی سمجھیں اور ابدی زندگی کیلئے اچھی تیاری کریں۔تاکہ اپنے اصلی گھر میں خدا کے پاس جا کر اْس میراث کے حقدار بنیں جو بنائے عالم سے ہمارے لئے تیار کی گئی ہے۔