کیسٹ کی گفتگو
آڈیو یا میوزک کیسٹ ہالینڈ کی کمپنی فلپس کی ایجاد ہے۔ میوزک کیسٹس کئی نسلوں کی پسندیدہ ترین ایجاد تصور کی جاتی تھی۔ 1970ء سے 1990ء کی دہائی تک کمپیکٹ کیسٹس آواز کی دنیا کی سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی ایجاد تھی۔گزشتہ پچاس برسوں کے دوران دنیا کے بیشتر ممالک میں کیسٹس سننے کا رواج کم ہوتا گیا اور اب تو مارکیٹ میں کیسٹ پلیئر بھی دستیاب نہیں ہیں۔ بات اگرغریب اور ترقی پذیر ممالک کی کی جائے تو وہاں ابھی بھی کہیں کہیں کیسٹس استعمال کی جاتی ہیں۔ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں صورتحال اس کے بالکل ہی برعکس ہے۔ زیادہ تر افراد نے پرانی یادوں کو تازہ رکھنے یا پھر نایاب ہونے کی وجہ سے آڈیو کیسٹس اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں۔
1963ء میں ہی کیسٹ کے ساتھ ساتھ کیسٹ ریکارڈر بھی ایجاد کیا گیا تھا۔ اس طرح میوزک کے دلدادہ افراد کی چاندی ہو گئی اور انہوں نے اسے اپنا شوق پورا کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس پر میوزک ریکارڈز بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا تھا۔ تاہم 1965ء سے باقاعدہ طور پر مختلف کمپنیوں کے ناموں سے کیسٹس مارکیٹ میں دستیاب ہونا شروع ہو گئیں۔ اس دور میں جرمن کمپنیBASF کے کیسٹس کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔
1979ء میں واک مین کی ایجاد کے ساتھ ہی موسیقی کے شوقین افراد کی خوشی دو بالا ہو گئی۔ یہ چھوٹا سا یا دستی کیسٹ پلیئر سونی کمپنی کی اختراع تھی۔ اس کے ساتھ ہی کیسٹ سننے کے رجحان میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اگر جرمنی کی بات کی جائے تو ہر سال 80 ملین واک مین فروخت ہوتے تھے کیونکہ بہت سے افراد ہر وقت موسیقی سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے۔تاہم گزشتہ تقریباً پندرہ برسوں سے صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک وقت میں کیسٹ کو سب پسند کرتے تھے تاہم اس کی مانگ میں تیزی سے کمی ہوئی اور ہوتی ہی چلی گئی۔ 2010ء میں کیسٹ بنانے کا سلسلہ مکمل طور پر روک دیا گیا۔
کیسٹ میں اپنی باتیں ریکارڈ کرنا، ایک ایسا عمل تھا جس نے محبت، یادیں، اور جذبات کو الفاظ سے آواز میں ڈھال دیا۔ پردیس میں رہنے والے اپنے پیاروں کے لئے کیسٹ پر اپنی باتیں ریکارڈ کرتے اور پھر اُسے ڈاک کے ذریعے اپنے وطن بھیجتے۔ اس ریکارڈ شدہ پیغام میں نہ صرف الفاظ ہوتے بلکہ آواز میں چھپی خوشی، غم، اضطراب اور محبت کی لہریں بھی شامل ہوتیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب خطوط جذبات اور احساسات کے امین ہوا کرتے تھے۔ قلم کی سیاہی سے لکھی گئی تحریریں، دلوں کی دھڑکنوں کو کاغذ پر بکھیرتی تھیں۔ ان خطوط میں محبت، اداسی، خوشی، اور جدائی کی تمام کیفیتیں سمٹ آتی تھیں۔ لیکن پھر ایک دن، وقت نے اپنی چال بدلی اور خط کو کیسٹ نے آ لیا۔ کیسٹ، جو اُس دور کی جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار تھا، اس نئی ایجاد نے جذبات کو ایک نئی راہ دی۔
جب یہ کیسٹ گھر پہنچتا تو پورا خاندان ایک جگہ جمع ہو کر اُسے سنتا۔ والدین اپنے پردیسی بچوں کی آواز سن کر اشک بار ہو جاتے، بہن بھائی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے اور دوست یادوں میں کھو جاتے۔ کیسٹ کی یہ گفتگو خط کی طرح ایک طرفہ نہیں ہوتی تھی بلکہ یوں محسوس ہوتا جیسے پردیس میں رہنے والا فرد خود موجود ہو اور سب سے محو گفتگو ہو۔کیسٹ نے رابطے کی اس کمی کو ختم کیا جو خط کے ذریعے ممکن نہیں تھی۔ کیسٹ کی آواز میں وہ درد، وہ محبت، اور وہ احساس ہوتا جو لکھے ہوئے لفظ میں مکمل طور پر منتقل نہیں ہو سکتا تھا۔ کیسٹ نے نہ صرف الفاظ کو آواز بخشی بلکہ دوری کو قربت میں بدل دیا۔
آج، اس ڈیجیٹل دور میں جب ای میلز، ویڈیو کالز، اور پیغامات لمحوں میں سفر کر جاتے ہیں، کیسٹ کا دور شاید قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ مگر جو جذبات اور یادیں کیسٹ کے ذریعے بھیجی اور سنی گئیں، وہ ایک سنہری دور کا حصہ بن چکی ہیں جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔