شیرانوالہ دروازہ

پاکستان کے شہر لاہور کا تاریخی دروازہ ہے۔ یہ فصیل شہر کے شمال مشرق کی جانب واقع ہے۔اس دروازہ کے بائیں جانب یکی دروازہ اور دائیں جانب کشمیری دروازہ واقع ہے۔ کشمیری دروازے کی طرح یہاں بھی سرکلر گارڈن بارہ تیرہ فٹ گہرائی میں ہے۔ شیرانوالہ دروازے کے باہر ایک سڑک ہے جو دائیں جانب فصیل شہر کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی شیرانوالہ دروازے کو کشمیری دروازے سے ملاتی ہے۔ اس سڑک کو مولانا عبید انور روڈ کہا جاتا ہے۔اس دروازے کا پرانا نام خضری دروازہ بھی ہے۔ جس کی وجہ تسمیہ یہ روایت بتائی جاتی ہے کہ حضرت خضر اس دروازے سے باہر نکل کر راوی دریا میں اتر گئے تھے تب سے اس دروازے کا نام خضری دروازہ چلا آ رہا ہے۔ حضرت خضر وہی ہیں جنھوں نے آبِ حیات دریافت کیا جسے پینے کے بعد ابدی عمر پائی اور اب بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق وہ کسی بزرگ کی شکل میں ظاہر ہو کر گم شدہ راہی کو منزل مقصود کی جانب رہنمائی کرتے ہیں۔ اندرون شیرانوالہ دروازے میں آج بھی خضری محلہ موجود ہے۔ 
شیرانوالہ گیٹ میں داخل ہوں تو مرکزی راستے کی چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ اس دروازے کا دریا کے کنارے ہونا تھا۔ یہ راستہ سیدھا پاکستان کلاتھ مارکیٹ میں آتا ہے جہاں اگلی طرف پرانی کوتوالی ہے جس کے قریب مسجد وزیر خان ہے۔ شیرانوالہ دروازے کے اندرون آبادی کو اکبر کے عہد میں گذر اسحاق کے نام سے یاد کیا گیا ہے جو ایک طرف رڑہ گذر سے اور دوسری طرف گذر جہجہ دیوانی کے ساتھ متصل ہے۔ شیرانوالہ دروازے کے اندر آبادی کئی کٹڑیوں میں آباد ہے۔ جن میں کٹڑی خیر دین، کٹڑی بابو ممتاز، کٹڑی ہری داس، کٹڑی سدھیر زیادہ اہم ہیں جبکہ دیگر محلوں میں نواں محلہ، خضری محلہ، حویلی شاہ زمان اور کوچہ کنج لال زیادہ اہم ہیں۔ سطحی نقشے اور روکار کے اعتبار سے شیرانوالہ اور کشمیری دونوں دروازے بے حد مماثلت رکھتے ہیں۔ ماہر تعمیرات غافر شہزاد شیرانوالہ گیٹ کے نقشے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ یک سطحی نقشہ میں شیرانوالہ دروازہ ایک درمیانی ڈیوڑھی جس کے ہر دو اطراف دو دو کمرے بنے ہوئے ہیں، پر مشتمل ہے۔ ان میں ایک کمرہ چھوٹا ہے جس کا دروازہ ڈیوڑھی میں کھلتا ہے اور پھر اسی کمرہ کے ساتھ بڑا کمرہ متصل ہے جس کی ایک کھڑکی اندرونی جانب کھلتی ہے۔
 دروازہ کی عمارت اس لحاظ سے قدرے مختلف ہے کہ یہاں دہلی یا لوہاری دروازے کے برعکس کوئی کھڑکی بیرونی جانب نہ کھلتی ہے، عمارت بھی یک منزلہ ہے اور اندرونی اور بیرونی روکا باہم کوئی مشابہت نہ رکھتے ہیں۔ گوتھک انداز تعمیر کی دوہری ڈاٹ جو ڈیوڈھی کی اندرونی و بیرونی جانب واقع ہے، کے علاوہ تمام عمارت ٹھوس ہے۔ بیرونی اطراف دو بڑے بڑے ستون ہیں جو مرکزی گوتھک انداز کی ڈاٹ کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔ چھت بھی اس ڈیوڑھی کی اسی کے انداز میں قدر اونچی بنائی گئی۔ آج یہ دروازہ تجاوزات کا کا شکار ہے اور اپنی اصل شباہت کھو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں اگر توجہ نہ دی گئی تو اس کی شناخت ختم ہو جائے گی۔
شیرانوالہ دروازہ اور اس کے اندر واقع چونا منڈی کا علاقہ ابتدائی سے ہی سرکاری اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ 1822ء میں سکھ دور حکومت میں دریائے راوی اس دروازے کے ساتھ بہتا تھا اور سکھ حکمران مہاراجا رنجیت سنگھ کے وزیر اعظم فقیر خاندان کے بانی فقیر عبد الرحیم تھے۔ ان کے والد اور والدہ کا قیام شیرانوالہ دروازے کے علاقے میں تھا اور وہ خود تحصیل بازار اندرون بھاٹی گیٹ میں رہائش پذیر تھے جہاں آج بھی فقیر خانہ موجود ہے۔ مہارجہ رنجیت سنگھ نے بڑے اور عادی مجرموں کو سزا دینے کے لیے 444شیر پال رکھے تھے جن کے رہنے کے لیے 77ایکڑ زمین موضع گلی رام بیرون شیرانوالہ گیٹ میں دریائے راوی کے کنارے مختص کی گئی تھی۔
 مہاراجا رنجیت سنگھ مجرموں کو سزائے موت دینے کے غرض سے ان کو بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دینے کا حکم دیتا تھا جو پلک جھپکتے میں شیروں کی خوراک بن جاتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق اسی نسبت سے اس دروازے کو شیرانوالہ دروازہ پکارا جانے لگا تھا۔ 1830ء کی دہائی میں ارضی تبدیلیوں کے باعث دریا کا رخ تبدیل ہو گیا۔ دریا کا رخ تبدیل ہونے سے بہت سارا علاقہ خشک ہو گیا جہاں عمارات تعمیر کی جانے لگی۔ 1840ء میں یہاں ڈسٹرکٹ پولیس لائنز قائم کی گئی جس کا بانی حوالدارسبحان خان تھا۔ اس کی ہی نسبت سے شیرانوالہ گیٹ تین حصوں میں خضری محلہ، لائن سبحان خان اور نواں محلہ کی تقسیم کی گئی۔ نواں محلہ کے ساتھ ہی یکی دروازے کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جو حضرت پیر ذکی کے نام سے منسوب ہے۔ شہر لاہور کی روایت رہی ہے کہ اولیاء کرام نے شہر کے دروازوں کے قریب مساجد قائم کیں اور قیام کیا۔ اس کے علاوہ شیرانوالہ دروازے کے علاقہ علمائے کرام، فلمی اداکاروں اور سیاست دانوں کا بھی مرکز رہا ہے۔ شیرانوالہ دروازے کی مسجد خدام الدین بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔
 شیرانوالہ دروازے کے اندر داخل ہوں تو دائیں جانب ایک سفید تاریخی مسجد ہے۔ اس کے اندر ایک تالاب موجود ہے۔ پرانے وقتوں میں اس تالاب سے پولیس لائنز کے تین سو اونٹ پانی پیا کرتے تھے اور موجودہ مسجد کی جگہ اونٹوں کا اصطبل تھا۔ جہاں اونٹوں کی نگہبانی کرنے والے مسلمان پولیس ملازمین کے لیے نماز پڑھنے کے لیے ایک مسجد بھی قائم تھی۔ مسجد کے قریب ہی ایک کنواں بھی تھا۔ بعد ازاں یہاں ایک مدرسہ قاسم العلوم قائم کیا اور 1933ء میں موجودہ جامع مسجد کی بنیاد رکھی گئی۔ شیرانوالہ دروازہ تاریخی ورثے سے مالامال ہے۔

Daily Program

Livesteam thumbnail