حْقہ

 حُقہ ہماری معاشرتی زندگی خصوصاً گاؤں (دیہات)میں بڑی اہمیت کا حامل تھا اور کسی حد تک ابھی بھی ہے۔گاؤں کی شائد ہی کوئی محفل ایسی ہو جس میں حُقے کی موجودگی نا ہو،شادی یا فوتگی پہ جہاں مہمانوں کیلیے چارپائی اور بستر اکٹھے کیے جاتے تھے وہیں انکی تواضع کے لیے حُقے بھی اکٹھے کیے جاتے تھے۔ ڈیرہ ہو یا دارہ, پنچایت ہو یا کوئی اکٹھ پردھیان حُقہ ہی ہوتا تھا۔دن کو کھیتوں میں کام کرتے وقت بھی لوگ اسی شخص کے پاس آ کر بیٹھتے تھے جسکا حُقہ تازہ ہوتا تھا،جس کے ڈیرے پہ حُقہ نہیں ہوتا تھا اُسے لوگ ڈیرے دار ہی نہیں مانتے تھے،اس حوالے سے پنجابی کی ایک کہاوت بھی مشہور ہے کہ ”واہیاں اوناں دیاں … حُقے جنہاں دے گھر دے“
 
   اس کہاوت کا لب لباب یہ ہے کہ جنکے پاس اپنے حُقے ہوتے ہیں انکی کھیتی باڑی بھی اچھی ہوتی ہے،چونکہ پرانے وقتوں میں تقریباً ہر کسان حُقہ نوش ہوتا تھا تو اپنا حُقہ نہ ہونے کی وجہ سے اُسے کسی دوسرے ڈیرے پہ جانا پڑتا تھا جسکی وجہ سے وقت ضائع ہوتا تھا اور کام میں خلل آجاتا تھا۔ظاہر ہے جسکا اپنا حقہ تازہ ہو تو کسی دوسرے کے پاس جانے میں جو وقت لگتا ہے وہ کھیتی باڑی کے مفید کام میں صرف ہو سکتا ہے۔
      دیہات میں چوپال کے درمیان بزرگوں کی محفل اسی کی مرہون منت تھی۔ہر گلی محلے میں کوئی مخصوص جگہ ہوتی تھی جہاں پہ ایک خاص وقت پہ ایک رونق سی لگی ہوتی تھی جہاں ایک دوسرے کا حال احوال اور دن بھر کی اِدھر اُدھر کی خبریں ایک دوسرے تک پہنچائی      جاتیں۔بزرگ بچوں اور جوانوں کو اپنی جوانی کی قصے سناتے اور اپنا بڑھاپا اور دُکھ بھول جاتے تھے۔ 
  
      حُقہ پینے والے کے لیے حُقہ ناں ہونا یا بُجھا ہوا ہونا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا کیونکہ اسکی غیرموجودگی حُقہ نوش کو بڑی گراں گزرتی ہے مثلا کھانا ہضم نہ ہونا سر درد کرنا چڑچڑاپن آجانا اور اسکے علاوہ جب کوئی بچہ حُقے کی نال میں پھونک مار کے پانی اوپر چڑھا کے حُقے کی آگ بجھا دیتا تھا تو بزرگوں کی جانب سے بچوں کو خوب ڈانٹ پڑتی۔
     حُقہ نوشی کے اپنے ہی اصول تھے جو بڑے جاندار اور شاندار ہوا کرتے تھے. بڑے بڑے دیرینہ دشمن بھی جب ایک حُقے پہ بیٹھتے تو کش لگا کر برابر حُقے کی نال ایک دوسرے کی طرف کرتے رہتے تھے, بڑی بڑی رقابتیں حُقے کی ایک محفل کی نذر ہو جاتیں. اس حوالے سے حُقہ کئی لوگوں سے اچھا ہے جو لوگوں کو توڑنے کی بجائے جوڑتا ہے اور انکی تنہائیاں دور کرتا ہے.
     حُقہ ہمارے کلچر اور روایات کا حصہ اور بزرگوں کی نشانی ہے جو کہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے کیونکہ حُقہ پینے اور بنانے والے گزرتے جا رہے ہیں اور نئی نسل کے لیے اور بڑے مشاغل ہیں جنھیں اپنی تاریخ یا روایات سے ویسے بھی کوئی سروکار نہیں اور ان اثاثوں کو دقیانوسی اور پرانی سوچ ہی گردانا جاتا ہے. 

Daily Program

Livesteam thumbnail