اجرک ایک قدیم تہذیب
ہر دور میں اجرک کی اہمیت دن بہ دن بڑھتی ہی ہے.سندھ میں رہنے والوں کی شان اجرک سے پہچانی جاتی ہے۔ شادی بیاہ ہو یا دیگر تقریبات، کسی کو تحفہ دینا ہو یا کوئی سوغات سب سے پہلے اجرک کو یاد کیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کو اجرک کا تحفہ دینا بہت اہمیت کا حامل مانا جاتا ہے۔ اجرک ایک قدیم تہذیب ہے جو ورثے میں موئن جو دڑو سے جاملتی ہے۔
نیل کا پودا دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کاشت کیا جاتا تھا۔ نیل کے کام کے آثار موئنجو دڑو سے بھی ملے ہیں، یعنی نیلگوں رنگ سندھی تہذبی ورثہ ہے، جو اجرک کا مخصوص رنگ ہے۔ہاتھ سے تیار شدہ اجرک کی تیاری میں محنت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کپڑے کو صرف چھپائی ہی کے لیے پانچ مراحل گزرنا پڑتا ہے۔ ڈھائی گز کی اجرک مکمل ہونے میں ایک ماہ سے زیادہ لگ جاتا ہے۔ اس کے چار مخصوص رنگ، یعنی کالا، سفید، سرخ اور نیلگوں یعنی انڈیگو ہیں، جو اجرک کی پہچان ہیں۔ہاتھ سے بنی ہوئی مخصوص اجرک کی پہچان یہ ہے کہ وہ دو طرف سے چھاپی جاتی ہے، جبکہ سکرین پرنٹ کی اجرک صرف ایک طرف سے پرنٹ ہوتی ہے۔ اس ثقافتی ورثے کو قدیم مخصوص قدرتی رنگوں، ٹھپے اور چھپائی سے بنایا جاتا ہے۔چھپائی والی اجرک خالص سوتی کپڑے پر ہی تیار ہو سکتی ہے۔ رنگوں اور کپڑے میں کوئی ملاوٹ نہیں ہونی چاہیے تبھی رنگ کھِل کر آتے ہیں۔وہی سوتی کپڑا جو لوگ پہنتے ہیں یہ کپڑا یوں تو جلد پھٹ جاتا ہے۔ لیکن اجرک تیار کرتے ہوئے اسے سرسوں کے تیل سے مضبوطی دیتے ہیں۔ اسے سات سے آٹھ دنوں کے لیے سرسوں کے تیل میں بھگو دیتا جاتاہے۔ جس سے وہ بھاری ہو کر مضبوط ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجرک سالہاسال تک چلتی ہے، پھٹتی نہیں۔ اس طریقے سے بنائی گئی اجرک ’تیلی اجرک‘ کہلاتی ہے۔
اس کے بعد اس تیلی کپڑے کو رات بھر کے لیے صابن، سوڈے اور کھارے تیل ملا کر بھٹی میں پکاتے ہیں، پھر گھسی یعنی اونٹ کے گوبر میں بند کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اس سے کپڑے میں نرمی آ جاتی ہے اور کپڑے کا سارا کلف نکل جاتا ہے۔ اب اسے پانی سے دھو کر سکھا لیا جاتا ہے۔اجرک کی تیاری میں موسم کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ بارش میں کام نہیں ہو سکتا کیوں کہ کئی مراحل پر کپڑے کو تیز دھوپ میں سکھانا ضروری ہے۔ اب کپڑا چھپائی کے لیے بالکل تیار ہے۔ اجرک کیلئے مخصوص رنگ تیار کیے جاتے ہیں۔ کالا رنگ تیار کرنے کے لیے پرانے لوہے کو پانی میں آٹھ دس دنوں کے لیے بھگو دیتے ہیں۔ زنگ اور پرانے لوہے سے جو رنگ نکلتا ہے، اس سے کالا رنگ تیار کیا جاتا ہے۔ لال رنگ ’منجید‘ پودے کی شاخوں سے تیار کیا جاتا ہے، ساتھ ہی گوند، ساگون، انار کے چھلکے اور مہندی کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ اجرک کے مخصوص نیلگوں رنگ یعنی انڈیگو کی تیاری کے لیے نیل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ نیل کو ہفتہ دس دن کے لیے بھگو دیا جاتا ہے۔ پہلے پہل اس میں سبزی مائل زرد رنگ نکلتا ہے، اس رنگ کو جتنی دھوپ لگتی جاتی ہے، وہ چمکیلا اور نیلا ہوتا جاتا ہے۔ یعنی اجرک کا مخصوص نیلا رنگ تیار ہے۔ اجرک کا ہر ڈیزائن الگ الگ ہوتا ہے، جیسے ’چکی،‘ ’جلیب‘ اور ’بادامی،‘ یہ سب چھپائی کے ڈیزائن ہیں۔ مخصوص نیلگوں رنگ کی اجرک کو ’کاشی اجرک‘ کہتے ہیں۔ موئن جودڑو سے نکلی ہوئی اجرک کے ڈیزائن کو ’ککر‘ کہتے ہیں۔ سرخ رنگ سے تیار اجرک کو ’کھارک‘ کہا جاتا ہے۔ اجرک کے پرانے طریقوں کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قدرتی رنگوں کی تیاری کے ساتھ ہاتھوں سے بلاک تیار کروایا جائے کیونکہ ٹھپوں کو بھی مشین سے تیار کیا جا رہا ہے۔ کیمیکل سے تیار شدہ رنگائی کے رنگ جرمنی سے آتے ہیں۔ یہ سستے ہوتے ہیں، جبکہ دیسی رنگ تیار نہیں ملتے۔اب قدرتی رنگوں کو تیار کرنے کے دوران ہاتھرنگ جاتے ہیں اور کئی کئی دن تک یہ رنگ چھٹتا نہیں۔ جبکہ کیمیائی رنگ صابن سے دھونے پر اتر جاتا ہے۔چھر:
اب چھپائی کا پہلا مرحلہ آتا ہے جس کو ’چھر‘ کہتے ہیں۔ اس میں اجرک پر کالے رنگ سے چھپائی کرتے ہیں پھر پورے کپڑے پر لال رنگ کیا جاتا ہے۔ ساتھ دھیان رکھا جاتا ہے کہ کوئی دوسرا رنگ کپڑے پر نہ چڑھے، اس لیے اونٹ کے گوبر سے کپڑے کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔ اس سے ایک رنگ دوسرے رنگ پر نہیں چڑھتا۔
اجرک کے اوپر بنے ہوئے ڈیزائن کو مشین اور ہاتھ کی میناکاری کی مدد سے پہلے لکڑی کے اوپر بنا کر اس کو کشیدہ کاری کرکے ٹھپے تیار کروا لیئے جاتے ہیں۔ پھر اس سے کپڑے پر ٹھپے لگائے جاتے ہیں۔
آخری مرحلے میں رنگ کو مضبوط کرنے اور کپڑے کی چمک کو برقرار رکھنے کے لئے ایک کیمیکل چپکایا جاتا ہے جس سے اجرک کی شان و شوکت برقرار رکھی جاتی ہے۔
ایک اچھی اجرک 6 سے 8 ہزار روپے کی بھی ہے اور کم سے کم 12 سو روپے کی بھی ہے البتہ خالص اجرک کی قیمت 2000 سے زائد ہی ہوتی ہے جس کا کپڑا بھی معیاری ہوتا ہے۔