جی۔ایم۔فیلکس قاصرؔ امرتسری
جی۔ایم۔فیلکس قاصرؔ امرتسری
جی۔ایم۔ فیلکس قاصر ؔامرتسری یکم جنوری1931ء کو اوکاڑہ میں پیدا ہوئے۔ مگر آباؤاجداد کا تعلق مشرقی پنجاب (امرتسر) سے تھا۔ میٹرک (1950ء) کے 29 برس بعد1979ءٗ میں کراچی یونیورسٹی سے دو گولڈ میڈل کے ساتھ ایم۔ اے صحافت کی ڈگری لی۔ دسمبر1978ء میں ریلوے کی38 سالہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی یونیورسٹی میں 7 سال تک ابلاغ عامہ پڑھاتے رہے۔ اور گورنر سند ھ سے بہترین تدریس کا ایوارڈ پایا۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں اور تنظیموں نے انہیں ادب، صحافت اور دینی خدمات کے اعتراف میں کئی ایوارڈ دئے۔
قاصرؔصاحب پاکستان رائٹرز گلڈ کے اولین مسیحی رکن بنے۔ ایک بھرپور ادبی زندگی کے ساتھ ساتھ وہ متعدد مؤقر کلیسیائی، ادبی اور سماجی تنظیموں میں فعال کردار ادا کرتے رہے۔ کاتھولک تنظیم المصنفین پاکستان کے بانی جنرل سیکریٹری(1962ء) کے علاوہ وہ بائبل اردو ترجمہ کمیٹی اور کاتھولک لڑیچر بورڈ، پاکستان کے رکن رہے۔
ایک پُر گوشا عر اور مقبول مسیحی گیت نگار ہونے کے علاوہ قاصر امرتسری کی ادبی خدمات کا دائرہ نصف صدی پر محیط ہے۔ جس کے دوران انہوں نے تقریباً 30 کتابیں تصنیف و ترجمہ کیں۔ جن میں ”قد اس عالیہ“ (1970ء)، ”نیاگیت گاؤ“ (1972 ء)،”مریم“ (1974ء) اور ”رومائی قداس نامہ“ (1997ء) کو ملک گیر شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔انہوں نے فادر لباریوس پیٹرسن آزادؔ (1905-1973) اور بعدازاں فادر عمانوئیل عاصی کے ساتھ مل کر کاتھولک بائبل کے اردو ترجمہ پر نظر ثانی کے دقیق کام کو سرانجام دیا۔ نیز مسیحی اصطلاحات کی انگریزی۔ اردو لغت کے نظر ثانی ایڈیشن کو مدون کرنے میں معاونت کی۔ درحقیقت یہ ان کے عظیم اور یارگار تخلیقی کام ہیں۔
اپنی صحافتی زندگی میں عنایت اللہ گولڈ میڈل ااور یونین انشورنس کمپنی قاہرہ ائیر کریش جرنلسٹ میڈل حاصل کرنے والے قاصر امرتسری دس سال تک کارڈ نیل جوزف کورڈیرو (1918-1994) کے افسر تعلقات عامہ رہے۔
کلیسیائی تنظیم”کاروانِ امن“کے صدر (انتخاب2001 ء) کی حیثیت سے کام کرنے کے علاوہ وہ پاک انڈیاپیپلز فورم فارپیس اینڈ ڈیموکریسی، مکتبہ ء عناویم پاکستان، کاتھولک بائبل کمیشن،پاکستان اور آرٹس کونسل آف پاکستان سے بھی منسلک رہے۔
قاصر ؔ امر تسری کی شخصیت تو خیر ان کی تعلیم و تربیت اور تہذیب ِ نفس کا نمونہ تھی ہی، ان کی شاعری بھی اردو زبان اورادب و فن کی موروثی روایتوں میں ڈھلی ہوئی ہے۔ ان کے مجموعہ ء کلام کا عنوان”دھڑکن‘ نغمہ، سانس، ترنم“ میں جو آہنگ، نغمگی اور ترنم ہے، وہ قاصر ؔ صاحب کی شاعری اور بالخصوص مسیحی گیت نگاری کا نمایاں ترین جوہر ہے۔
مسیحی گیت نگاری میں جو مقبولیت اور مقام قاصر ؔ صاحب کے حصّے میں آیا، وہ کسی اور مسیحی گیت نگار کو حاصل نہ ہو سکا۔ دنیا بھر میں اردو داں مسیحی شب و روز عبادتوں کے دوران ان کے لکھے ہوئے گیت گاتے ہیں، کیونکہ ان کے گیت کاتھولک لطور یا کا جزو لا نیفک ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ گیت نگاری کا فن بظاہر آسان مگر در حقیقت مشکل ہے۔ گیت نگاری میں بالعموم اشعار کے معنی و مفہوم کے بجائے قافیہ پیمائی اور سلاست پر زور دیا جاتا ہے۔ نیز کئی بار موسیقی کی دھن سے سمجھوتہ کرتے ہوئے علم ِ عروض کے تقاضوں سے صرف ِ نظر کو بھی جائز سمجھا جاتا ہے۔ مگر قاصرؔ صاحب نے نہ صرف اپنے گیتوں میں ٹکسالی زبان استعمال کی، بلکہ علم ِ عروض کے تقاضوں کو بھی کماحقہ نبھایا ہے۔ یہ امر نہ صرف ان کی قادر الکلامی بلکہ فنی چابکدستی پر بھی دلالت کرتا ہے۔
گو قاصر ؔ صاحب نے کثیر تعداد میں کئی موضوعات پر نغمے اور ملی ترانے بھی لکھے ہیں۔ مگر ان کے لکھے ہوئے کاتھولک لطو ریائی گیت ہی ان کی اصل شناخت اور پہچان بنے۔
مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر پادری شہباز نے مسیحی زبوروں کو منظوم کیا، تو قاصرؔ صاحب نے مسیحی علم ِ الہیات، علم المریم، علم المسیح، علم الکلیسیا اور مسیحی ایمان کی سچائیوں نیز پاک ساکرامنٹوں اور مسیحی دینیات کو نظم کا روپ دیا۔ شاید اس بات کا احساس قاصر ؔ صاحب کو بھی نہ ہوکہ انہوں نے اتنے وسیع کینوس پر تخلیقی کام کیا۔ مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں جب کبھی ان کی شخصیت اور فن پر کوئی تحقیقی کام ہوگا تو ان کی شاعری اور گیت نگاری کا نمایاں ترین پہلو یہی ہوگا کہ کس طرح وہ اپنی پچاس سالہ ادبی کاوشوں میں ایک غیر محسوس طریقے پر مسیحی تھیالوجی اور اسکی ملحقہ شاخوں کو منظوم کرتے رہے۔ چند مثالیں:
مسیحی الہیات
خداوند اے خداوند اے خداوند
تیری ہم موت کے مظہر ہیں ٹھہرے
قیامت کا تری ہم دم ہیں بھرتے
خداوندا کہ جب تک تو نہ آئے
پاک یو خرست
یہ روٹی ہم ہیں جتنی بار لیتے
یہ پیمانہ ہیں جتنی بار پیتے
ہیں تری موت کا اظہار کرتے
خداوندا کہ جب تک تو نہ آئے
پاک نکاح
مسیحی خاندانوں میں مسیحی پیار قائم ہو
جو اس کے نام میں جوڑا گیا، جوڑا وہ دائم ہو
بنیں دکھ سکھ کے ساتھی، جینا مرنا ہو مسیحا میں
رویہ بیوی شوہر کا سدا نرم و ملائم ہو
جنہیں شرعاً کیا ہم نے مسیحِ پاک میں اک تن
خدا کے فضل سے ان کی محبت خوش عزائم ہو
مسیحی گیت نگاری کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ شاعری اور موسیقی میں تقدس کے ماحول کو برقرار رکھا جائے۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ خود شاعر ایک پاکیزہ تخیل اور جذبے سے مملُو ہو۔ کیونکہ احساس ِپاکیزگی کے بغیر مسیحی گیتوں میں لطوریائی لب و لہجہ اور ماحول پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ مسیحی گیت نگاری میں قاصر ؔ صاحب کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ مسیحی عقائد اور ایمان سے اپنی شدید وابستگی کے سبب اس امتحان میں بھی سرخرو ہو کر نکلے۔ قاصر ؔ صاحب کے لطوریائی لب و لہجے، روانی اور سلاست کوملاحضہ فرمایئے:
اس کے طفیل اس میں
اور اس کے ساتھ عزت
کامل ہو باپ تجھ کو
شایانِ شان عظمت
قاصر ؔ صاحب کی مرتب کردہ ”رومائی قداس نامہ“، ”قداس عالیہ“ اور ”نیا گیت گاؤ“ نامی کتابیں کاتھولک لطوریا پر ان کی مضبوط گرفت کی عکاسی ہیں۔
الغرض ان کا مجموعہ کلام”ڈھرکن، نغمہ، سانس، ترنم“ قاصر ؔ صاحب کے تخلیقی کام کا وہ نقش ِ اول ہے جو دیا رِ ادب و فن میں نہ صرف ان کے مقام کا تعین کرتا ہے، بلکہ نئے لکھنے والوں کے لئے مشعل ِ راہ بھی ہے۔