بیت عینا کی مقدسہ مارتھا
عالمگیر کلیسیا ہر سال بڑی خوشی شادمانی سے 29 جولائی کو مقدسہ مارتھا کا یوم ِ یادگار مناتی ہے۔ نام ِمارتھااسم کے لحاظ سے مونث نام ہے جوکہ ارامی زبان کا لفظ ہے۔ جس کا مطلب ہے ”خاتون یا گھر کی مالکن“۔ مقدسہ مارتھا کا یوم ِ یاد گار سب سے پہلے منانے کا آغاز 1262 میں فرانسسکن جماعت نے کیا۔مقدسہ مارتھا، مریم اور لعزر کی بڑی بہن تھی۔ جو امورِ خانہ داری، مہمان نوازی، تیماداری اور مسافر پروری میں یکسر نمایاں تھی۔ مارتھا ایک کنواری دوشیزہ تھی جس کا شمار بائبل مقدس کی اُن عظیم خواتین میں ہوتا ہے جنہیں کلیسیا میں مقدسہ ہونے کا درجہ حاصل ہے۔آج نہ صرف کاتھولک بلکہ اینگلیکن اور لوتھرن کلیسیائیں بھی مقدسہ مارتھا کا یوم ِ یاد گار مناتے ہیں۔ جبکہ 4 جون (مشرقی آرتھوڈوکس) بھی مقدسہ مارتھا کا یومِ یاد گار بڑی خوشی سے مناتے اورسفارشات طلب کرتے ہیں۔مقدسہ مارتھا کے نام سے منسوب بہت سے گرجا گھر اور ادارے مخصوص ہیں جو مقدسہ مارتھا کی روحانی زندگی کو عمل میں لاتے ہوئے خُدا کا جلال ظاہر کرتے ہیں۔خُدا اُن تمام اداروں اور گرجا گھروں کو مقدسہ مارتھا کی سفارشات کی بلدولت برکاتِ الٰہی سے نوازتا رہے۔
بیت عنیا کی مارتھا کا سوانح حیات
بیت عنیاکی مارتھا پہلی صدی میں یہودیہ میں پیدا ہوئی۔ آپ کے والد کانام سائرو (Cyrus) اور ماں کا نام اینچاریا (Encharia)تھا۔ مارتھا اپنی بہن مریم اور بھائی لعز ر کے ساتھ بیت عنیا میں رہائش پذیر تھی۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جو زیتون کے پہاڑ کی مشرقی ڈھلوان کی طرف یروشلیم سے 15 غلوہ (2 میل) دور واقع تھا۔آج کل اِس کا نام ”المعزریہ“ ہے جو لعزر کے نام سے رکھا گیا ہے۔ بیت عنیا کا ذِکر نئے عہد نامہ میں متعدد بار آیا ہے۔ یہ نہ صرف مارتھا اور اُس کی بہن مریم اور بھائی لعزر کی رہائش گاہ تھی بلکہ شمعون کوڑھی کا گاؤں بھی تھا جس کا ذکر مقدس متی 26 ویں باب اور پھر مقدس مرقس کے 14ویں میں ملتا ہے۔یروشلیم کے قریب ہونے کی وجہ سے یریحو کی طرف جانے والوں کے لئے بیت عنیا پہلی قیام گاہ تھی جہاں لوگ تھوڑی دیر آرام کے لئے رکتے تھے۔ کیونکہ اِس جگہ کے پہلو میں بہت خوبصوت سیرگاہ تھی جو سیرو تفریح کے لئے بڑی پُر کشش اور راحت بخش تھی۔ اور یہی پر بیٹھ کر وہ دھیان وگیان اور یروشلیم میں جانے کے لئے منصوبہ سازی کرتے تھے۔ لہٰذا بیت عنیا کی مارتھا کا زیادہ تر عمر کا حصہ اِسی جگہ پر گذرا۔
مارتھا بنظرِ اناجیل:
عہد نامہ جدید میں مارتھا کا ذکر مقدس لوقا اورمقدس یوحنا کی اناجیل میں تین مرتبہ مرقوم ہے۔
1۔(لوقا 42-38:10)اِن عبارات میں ہم دو بہنوں یعنی مارتھا اور مریم کا ذکر سنتے ہیں جن کے گھر یسوع مہمان بن کر جاتا ہے۔
2۔(یوحنا 44-1:11) اِن آیات میں مریم اور مارتھا کے بھائی لعزر کو زندہ کرنے کا واقعہ درج ہے۔
3۔جبکہ تیسرا حوالہ مقدس یوحنا کی انجیل 3-1:12میں میں ملتا ہے۔ جہاں مارتھا خُداوند یسوع کی خدمت میں مصروف دکھائی دیتی ہے اور اُس کی بہن مریم کوخُداوند یسوع کے پاؤں پرقیمتی عطر مَل کر بالوں سے پونچتے دکھایا گیاہے۔
مہمان نواز:
زمانے تاریخ سے مہمان نوازی اور فکرمندی شاندار اقدار کا وصف رہے ہیں۔اور یہی مہمان نوازی اور فکرمندی مارتھا کی روحانیت کا خاصہ تھا۔اِسی لئے مارتھا کو یہودی روایت کے مطابق میزبانی اور مہمان نوازی کا نگینہ کہا جاتا ہے۔ما رتھا باورچی، خانساموں، ویٹروں اورگھریلو خواتین کی مربیہ کہلاتی ہے۔مارتھا نہایت نفیس میزبان، دعوت کرنے والی، بے باک، متحرک، فکرمند، ذمہ دار، خدمت گزار، مہمان نواز، اور صاحبِ خانہ گھریلو خاتون تھی۔ اورخُداوند یسوع اکثر اُس کے گھر مہمان ہوتا تھا۔ مقدسہ مارتھا کے بارے مقدس بینیڈکٹ یوں فرماتے ہیں کہ”مقدسہ مارتھاکلیسیا کی تاریخ میں مہمان نواز ی کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے“۔ مریم،مارتھا اور لعزر تین بہن بھائیوں پر مشتمل یہ خاندان ایک مذہبی گھرانہ تھا۔ اور مارتھا گھر میں سب سے بڑی تھی۔ گھر کی سربرہ یا بڑی بیٹی اور بہن ہونے کے ناطے گھر کی دیکھ بھال کا ساراکام اس کے ذمہ تھا۔ جس کا ذکر ہم مقدس لوقا کی انجیل اُس کے دسویں باب میں سنتے ہیں ”اور جب وہ جارہے تھے تو وہ ایک گاؤں میں داخل ہوا اور مارتھا نامی ایک عورت نے اُسے اپنے گھر میں اُتارا۔ اور مریم نامی اُس کی ایک بہن تھی اور وہ بھی خُدا کے پاؤں کے پاس بیٹھ کر اُس کا کلام سنتی تھی۔ مگر مارتھا طرح طرح کی خدمت کرنے کے تردّد میں تھی“ (لوقا 40-38:10)۔
مارتھا کی فکر و ترددد کا مرکز خداوند یسوع کی خدمت کرنا تھا۔وہ بطور میزبان یسوع کی اعلیٰ خاطرداری کرنا چاہتی تھی۔اِسی لئے وہ یسوع سے شکایت بہ لب ہو جاتی ہے۔ وہ شاہی مہمان کی خاطر مدارات کے لئے تیاریاں کرتے کرتے گھبرا جاتی ہے۔ اور کہتی ہے کہ”اَے خُداوند تو خیال نہیں کرتا کہ میری بہن نے خدمت کرنے کو مجھے اکیلا چھوڑ دیا ہے۔پس اُس سے کہہ کہ میری مدد کرے“ (لوقا 40:10)۔ کلام ِ مقدس میں اُس کے افعال، بیانات اور یسوع پر ایمان کی بِنا پر اُسے غیر معمولی عورت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جو پاس بیٹھنے اور سننے کی بجائے کام کو عملی جامہ پہنانے میں زیادہ متحرک نظر آتی ہے۔ مارتھا ابھی تک نجی اور سطحی سوچ کی مالکہ تھی جو گھر کی عزت و تکریم کے لئے بھاگ دوڑ کرتی ہے۔ تاکہ اُس کے گھر سے شاہی مہمان(یسوع) بھوکا نہ جائے۔ لیکن وہ ابدی اور آسمانی روٹی سے ابھی تک واقف نہ تھی۔لیکن مقدسہ مارتھا کا یسوع کو اپنے گھر میں اُتارنا اُس کے فیاض دل ہونے اور میزبان ہونے کی اعلیٰ دلیل ہے۔
مارتھاایک دور اندیش ایماندار:
اگر ہم مقدسہ مارتھا کی زندگی کا دوسرا پہلو دیکھیں تو مارتھا کم اعتقاد یا بے ایمان نہیں بلکہ دور اندیش ایماندار خاتون معلوم ہوتی ہے جس نے اپنے مربوط اور پختہ ایمان کا برملا اظہار اپنے پیارے اور اکلوتے بھائی لعزر کی وفات پر کیا۔مقدس یوحنا کی انجیل کے گیارویں باب میں مارتھا اور یسوع کے درمیان ہونے والے اِس مکالمہ میں مارتھا پانچ دفعہ یسوع سے مخاطب ہوتی ہے۔ تاہم ملاقاتِ مارتھا اور یسوع کے مکالمے سے یوں لگتا ہے جیسے یسوع مارتھا کے ایمان کو اور زیادہ مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ جب لعزر کی وفات ہوگئی تو یہ مارتھا ہی تھی جو یسوع سے ملنے کو گئی۔ بے شک پہلے وہ تھوڑی ناراضگی کا اظہار کرتی ہے کہ ”اگر تو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا“ (یوحنا 21:11)۔ لیکن پھر ناقابلِ بیاں ایمان کا اظہار کرتی ہے کہ ”میں جانتی ہوں کہ اب بھی تو خُدا سے جو کچھ مانگے گا خُدا تجھے دے گا“ (یوحنا 21:11)۔ خُداوند یسوع مسیح جواباً اُسے کہتے ہیں ”کہ تیرا بھائی جی اُٹھے گا۔ مارتھا نے اُس سے کہا میں جانتی ہوں کہ وہ یومِ آخر کو قیامت میں جی اُٹھے گا“ (یوحنا 24-23:11)۔مقدسہ مارتھا کا اقرار کرنا کہ ”وہ یومِ آخر کو جی اُٹھے گا“اِس بات کی نشاندہی ہے کہ وہ روحوں کے جی اُٹھنے اور آخرت پر یقین رکھتی ہے۔
بے شک مارتھا کا ایمان مضبوط تھا لیکن یسوع نے مارتھاکے ایمان کو وسعت دی۔ وہ یہ خیال کرتی تھی کہ ”وہ یومِ آخر کو جی اُٹھے گا“ (یوحنا 24-23:11)۔تاہم یسوع نے اُس پر واضع کر دیا کہ ”قیامت اور زندگی میں ہوں“ (یوحنا 25:11)۔مارتھا جو صرف قیامت میں ہی اپنے بھائی کے جی اُٹھنے کی منتظر تھی۔ یسوع نے اُسے پہلے ہی زندہ کر کے ظاہر کیا کہ ”قیامت اور زندگی میں ہوں جو مجھ پر ایمان لاتا ہے اگر وہ مر گیا ہو تو بھی زندہ رہے گا“ (یوحنا 26:11)۔ اور پھر یسوع مارتھا اور مریم کی موجودگی میں لعزر کو زندہ کرتے ہیں۔ مارتھا کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ یسوع اُس کے بھائی کو زندہ کرئے گا۔اور نہ ہی اُس نے سوچا تھا۔لیکن اُس کا یہ ایمان ضرور تھا کہ ”اب بھی تو خُدا سے جو کچھ مانگے گا خُدا تجھے دے گا“ (یوحنا 22:11)۔دوسری جانب خداوند یسوع لعزر کی چار دن کی موت سے واقف تھا۔ اُس کی اپنے دوست لعزر کے لئے یہ ذاتی خواہش تھی کہ وہ اُسے زندہ کرے۔لعزر کی بیماری کا پیغام موصول ہونے سے پہلے جس کے بارے بائبل نہیں بتاتی کہ یہ پیغام کس نے دیا۔ یسوع دریائے اُردون کے پار تھا جہاں یوحنا اصطباغی اصطباغ دیا کرتا تھا(یوحنا 40:10)۔ یہاں ”بہنوں نے اُسے کہلا بھیجا کہ اَے خُداوند دیکھ جسے تو پیار کرتا ہے وہ بیمار ہے“ (یوحنا 3:11)۔ یسوع لعزر کی موت سے پہلے جانتا تھا کہ ”یہ بیماری موت کی نہیں بلکہ خُدا کے جلال کے لئے ہے“ (یوحنا 4:11)۔ یسوع یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ وہ بیمار ہے دو دن مزیدوہیں رہا۔اور پھر دو دن بعد اپنے شاگردوں سے کہا کہ ”آؤ ہم پھر یہودیہ کو چلیں“ تاکہ وہ اپنے دوست لعزر کو جو سو گیا ہے جگائے۔یسوع لعزر کو نیند سے بیدار اور جگانے کے لئے آیا تھا۔ تاہم شاگرد لعزر کی نیند کی بابت سمجھتے ہیں لیکن”یسوع نے اُن سے صاف کہا کہ لعزر مر گیا ہے۔۔۔تب توما نے جو توام کہلاتا ہے اپنے ساتھ شاگردوں سے کہا کہ آؤ ہم بھی چلیں تاکہ اُس کے ساتھ مریں“ (یوحنا 16-1:11)۔ توما کا یہ کہنا کہ آؤ ہم بھی اُس کے ساتھ مریں، اِس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ بے اعتقادی کی موت میں مرے اور لعزر کے ساتھ مسیح میں جی اُٹھے۔ نیز بہت سارے جمع ہوئے اور افسوس پر آئے ہوئے یہودیوں کے لئے گواہی ہو ”تاکہ اُس کے سبب سے خُدا کے بیٹے کا جلال ظاہر ہو“ (یوحنا 4:11)۔ لہٰذہ لعزر جو بائبل مقدس میں یسوع کا واحد دوست بتایا جاتا ہے یسوع کے کہنے اور خواہش پر چار دن کے بعد مردوں میں سے زندہ کیا گیا۔اُس سے پہلے مارتھا کا یہی خیال تھا کہ ”اگر تو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا“ (یوحنا 21:11)۔تاہم دوسری جانب مارتھا معجزہ دیکھ کر ایمان نہیں لائی بلکہ وہ معجزہ سے پہلے ہی ایمان لا چکی تھی کہ اگر تو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا۔یہاں یسوع کے اِس معجزے میں مارتھا اور اُس کی بہن مریم خود موجود ہیں اور یسوع اُن کی موجودگی میں اُن کے بھائی لعزر کو زندہ کرتے ہیں۔ جو اِس بات کی گواہی ہے کہ وہ یسوع کے اِس معجزے میں بھر پوری اورایمان کے ساتھ موجود تھیں۔ نہ صرف مارتھا اور مریم بلکہ توما، شاگرد اور دیگر یہودی بھی خُدا کے جلال کو ظاہر ہوتا دیکھتے ہیں۔ یوں مارتھا کے یسوع سے مکالمے سے نہ صرف اُس کا اپنا ایمان مضبوط ہوا بلکہ وہ دوسروں کے لئے بھی خُدا کے بیٹے کا جلال ظاہر کرنے میں مبشرہ ٹھہری۔
مارتھا کے ایمان کے چار بنیادی ستون:
1۔ ”اگر تو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا“ (یوحنا 21:11)۔ (کامل ایمان)
2۔ ”اب بھی تو خُدا سے جو کچھ مانگے گا خُدا تجھے دے گا“ (یوحنا 21:11)۔ (الٰہی بھروسہ)
3۔ ”وہ یومِ آخر کو قیامت میں جی اُٹھے گا“ (یوحنا 24-23:11)۔ (قیامت پر ایمان)
4۔ ”کہ تو المسیح ابنِ خُدا ہے جو دُنیا میں آنے والا تھا“ (یوحنا 27:11) (موعودہ مسیح پر ایمان کا اقرار)۔
مارتھا کی روحانی جستجو:
1۔مارتھا یسوع پر ایمان رکھتی ہے۔
2۔مارتھا ایمان سے ہی یسوع کو ملنے جاتی ہے۔
3۔ مارتھا یسوع کی الٰہی طاقت،قوت اور قدرت پر ایمان رکھتی ہے۔
4۔مارتھا نااُمیدی میں ایمان کو تھامے رکھتی ہے۔
5۔مارتھا یومِ آخر پر ایمان رکھتی ہے۔
6۔مارتھا موت سے زندگی پر ایمان رکھتی ہے۔
7۔ مارتھا المسیح ابنِ خُدا پر ایمان رکھتی ہے۔
پیروکار اور وفادار شاگردہ:
مقدسہ مارتھا خداوند یسوع کی سچی پیروکار اور وفادار شاگردہ تھی۔ وہ اپنے من سے یسوع کو اپنا نجات دہندہ قبول کر چکی تھی۔اور ایک حقیقی شاگردہ بننے کے لئے اُس میں سارے گُن پائے جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک شاگرد ہونے کا سب سے بڑا تقاضا خدمت گزار ہونا ہے۔ اور یہ خوبی مقدسہ مارتھا میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ لوقا انجیل نویس بیان کرتے ہیں کہ جیسے ہی یسوع اور اُس کے شاگرد مریم اور مارتھا کے گھر داخل ہوتے ہیں تو مارتھا اُن کی خدمت میں مصروف ہو جاتی ہے۔اُن کے آرام کے لئے جگہ تیاری کرتی ہے اور طرح طرح کے پکوان بنانے میں مصروف ہو جاتی ہے تاکہ یسوع کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہے۔ یہاں پر مقدسہ مارتھا ایک شماسہ کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ایک شماس کے فرائض میں سے ایک اوّلین فرض خدمت گزاری کا ہے۔ لہٰذا اپنی اِس خدمت گزاری کی وجہ سے مقدسہ مارتھا خُداوند یسوع کی فرمانبردار شاگر ہونے کا مقام حاصل کرتی ہے۔ اور ہم سبھوں کے لئے خدمت کرنے کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہے۔
وفات:
مقدسہ مارتھا نے فرانس کے ایک قصبے تراسکون (Tarascon)میں وفات پائی۔اور یہی پراِن کا مقبرہ مقامی کالجیٹ چرچ کے کرپٹ میں واقع ہے جہاں اُسے دفن کیا گیا۔تاہم پاپائے اعظم فرانسس کی طرف سے 2 فروری2021 کو ”کانگریگیشن آف ڈیوائین ورشپ(جماعت برائے الٰہی تمجید) اور ساکرامنٹس“کی طرف سے شائع ہونے والی ڈگری میں پاپائے اعظم نے مقدسہ مارتھا کے یوم یادگار کے موقع پر اُس کے نام کے ساتھ مریم اور لعزر کا نام بھی شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔ کیونکہ اُنہوں نے خُداوند یسوع مسیح کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہا۔ اُس کی باتوں کو غور سے سُنااور لعزر کے زندہ کئے جانے کے موقع پر یسوع کو”قیامت اور زندگی“ کے طور پر قبول کیا اور اُس پر ایمان لائے۔
حروفِ دعوت:
نئے عہد نامہ(متی 16:16) میں مقدس پطرس رسول کے بعد اگر کسی نے یسوع مسیح کے ”مسیحا“ ہونے کی گواہی دی ہے تو وہ صرف مقدسہ مارتھا ہی ہے ”ہاں اے خُداوند میں ایمان لا چکی ہوں کہ تو المسیح ابنِ خُدا ہے جو دُنیا میں آنے والا تھا“ (یوحنا 27:11)۔ آئیں ہم مقدسہ مارتھا کی طرح خُداوند یسوع پر ایمان لائیں کہ وہ در حقیقت المسیح اِبن خُدا ہے۔ مارتھا کی طرح مہمان نواز بنیں۔ خدمت کرنے میں پہل کریں۔اپنی ماؤں کے لئے دُعا کریں جو مارتھا کی طرح گھر کی خدمت کرتی ہیں۔اور غور کریں کہ میں کیسا یا کیسی میزبان ہوں؟۔
آمین۔!