ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا!
ایک شخص نے بہت بڑی دعوت کااہتمام کیا جس میں بچھڑے ذبح کئے گئے اور اپنے بھائی سے کہا کہ ہمارے دوستوں اور پڑوسیوں کو دعوت دو تاکہ وہ ہمارے ساتھ مل کر کھاناکھائیں۔
اس کا بھائی باہر گیا اور پکار کر کہا۔
اے لوگو! ہماری مدد کرو میرے بھائی کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے۔
کچھ ہی دیر میں لوگوں کا ایک مجمع نکلا اور باقی لوگ کام میں لگے رہے جیسے انہوں نے کچھ نہ سنا ہو۔وہ لوگ جو کہ آگ بجھانے میں مدد کو آئے تھے انہوں نے سیر ہوکر کھایا پیا۔اور جب واپس چلے گئے تب اْس شخص اپنے بھائی کی طرف تعجب سے دیکھا اور کہا:
یہ جو لوگ آئے تھے میں تو اْنھیں پہچانتا بھی نہیں تھا اورنا ہی میں نے پہلے کبھی اْن کو دیکھا ہے پھر وہ ہمارے دوست احباب کیسے ہوئے؟ اور جو اصل میں ہمارے رشتے دار ہیں وہ کیوں نہیں آئے؟کیا تم نے انھیں نہیں بلایا تھا؟
بھائی نے جواب دیا:ہاں بلایا تو تھا بس دعوت کا انداز بدل دیا تھا۔میں نے بولا تھا کہ میرے بھائی کے گھر آگ لگ گئی ہے تو رشتے دار آئے ہی نہیں اور یہ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر ہمارے گھر میں لگی آگ بجھانے کو آئے تھے ناں کہ دعوت میں۔اس لیے یہی لوگ مہمان نوازی اور خاطر تواضع کے قابل ہیں۔
دوستو! یاد رکھیں اْس اپنے کا کیا فائدہ جو تکلیف یا مصیبت کے وقت جان بوجھ کر آپ کی مدد کیلئے نہ آئے۔ پھر ایسے انسان کو دوست،بھائی،پڑوسی یا پھر رشتے دار کا نام ہر گز مت دیں اور یقینی طور پر جان لیں کہ جو تنگی کے وقت آپ کاساتھ دے وہی آپ کے حقیقی محسن اور ہمدرد ہیں۔