کانٹے سے بچنا
فن چھوٹی لیکن خوب صورت مچھلی تھی۔اس کو ندی کے پانی میں تیرنا بہت پسند تھا۔ایک دن وہ پانی میں تیرتے ہوئے ایک دلچسپ نظر آنے والی سنڈی کے پاس پہنچی اور اس کے اِردگرد آہستہ آہستہ تیرنے لگی۔ وہ اپنے منہ میں اس مزیدار کھانے کا ذائقہ محسوس کر سکتی تھی۔ چھوٹی مچھلی اس کو منہ میں نکلنا چاہتی تھی لیکن اس کے ذہن میں بوڑھوں کی بتائی گئی ہدایت اسے رْکنے پر مجبور کر رہی تھی۔ فن کے دل میں بڑی مچھلیوں کی بتائی ہوئی تمام ہدایات پر شک تھا وہ یہ نہیں دیکھ پا رہی تھی کہ اتنی مزے دار نظر آنے والی چیز بھلا کیا خطرہ پہنچا سکتی ہے۔ بڑی مچھلیاں اکثر چھوٹی مچھلیوں کو بتاتی تھی کہ اوپر والے پانی میں کتنا خطرہ ہوسکتا ہے اور چھوٹی مچھلیاں کتنی درد ناک صورت کا سامنا کر سکتی ہیں۔ کیا یہ سب کہانیاں سچی تھیں؟فن مچھلی نے سوچا اور ارادہ کیا کہ وہ خود اس بات کا پتہ لگا کر رہے گی۔وہ سنڈی کی طرف بڑھنے لگی۔ اس نے پیتل کو دیکھا نہ کانٹے کو دیکھا۔ اس کو تو صرف وہ سنڈی نظر آرہی تھی۔اس نے آگے بڑھ کر اپنا منہ کھولا اور ایک زور کا دھکا اسے محسوس ہوا۔مچھلی کے چچا نے اْسے گھسیٹتے ہوئے پیچھے کیا۔ آخر تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟چچا نے فن کو کہا۔کیا تمہیں لگتا ہے کہ ہم نے کانٹے کے بارے میں جو بتایا سب مذاق تھا؟فن مچھلی نے ڈرتے ہوئے جواب دیا مجھے نہیں معلوم۔ اکثر میرے دل میں یہ سوال آتا ہے کہ کیا یہ واقعی سچ ہے؟ چچا نے کہا میرے پیچھے آؤ اب وقت آگیا ہے کہ تمہیں معلوم ہو کہ کانٹا کیا کر سکتا ہے۔مچھلی اپنے چچا کے پیچھے پیچھے پانی کے اوپر والے حصے میں آ پہنچی جو کہ کنارے کے قریب تھا۔ ان کے سامنے بہت سی مچھلیاں تھیں جو پانی میں بے ْسود پڑی تھیں اور کچھ تو بس مشکل سے ہی زندہ تھی۔باقی کے منہ زخمی ہوئے تھے اور ان کا کچھ بھی کھانا مشکل تھا۔یہ بہت درد ناک منظر تھا جو مچھلی کو بہت دیر تک یاد رہا۔اِسی لمحہ ایک پرندے نے پانی میں غوطہ لگایا اور تیرتی ہوئی مچھلیوں میں سے ایک کو پکڑ لیا۔ چچا مچھلی نے سمجھایا یہ سب کانٹے کے سبب سے ہی ہے۔اْمید کرتاہوں اب تمہیں کہانیاں سچی لگیں گی۔ میری خواہش تھی کہ تم یہ سب دیکھے بغیر سمجھ جاتی۔ان سب کے باوجود مچھلی کے ذہن میں اْس ہوشیار مچھلی کی باتیں آ نے لگیں جس نے کانٹے میں سے سنڈی کھالی تھی۔ اس کے ذہن میں ایک غرور بھرا خیال آیا ”کہ میرے خیال میں یہ بیچاری میری طرح ہوشیار اور پھرتیلی نہیں ہیں“۔ ہر دن مچھلی نے اس چمکدار سنڈی کو دیکھنا جاری رکھا وہ مختلف قسم کی اور مختلف رنگوں کے ہوتے تھے لیکن مچھلی نے آہستہ سے اس کے گرد چکر لگانا شروع کر دیے۔ایک بدقسمت دن مچھلی کی آزمائش اس پر حاوی ہو گئی اور اس نے چارہ کو نگل لیا۔”یہ کیوں ذائقہ دار نہیں۔ یہ تو پلاسٹک جیسا ہے“۔ اس کو ایک خوفناک احساس ہوا۔پھراسے اپنے جبڑے میں تیز درد محسوس ہوا اور یہ بھی احساس ہوا کہ اس کو کوئی پوری طاقت سے کھینچ رہا ہے۔ چھوٹی مچھلی نے بچنے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی طاقت جواب دے گئی۔ اْس کو معلوم ہوگیا کہ وہ زندگی کی لڑائی ہار گئی ہے۔ اب اْسے اپنے بڑوں کی ساری باتیں یاد آ رہی تھیں لیکن اب پچھتانے کاکوئی فائدہ نہیں تھا۔
پیارے بچو! ہم بھی بہت دفعہ اپنے والدین کی بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔جبکہ والدین کی با تیں اور نصیحتیں ہمیشہ ہمیں فائدہ دیتی ہے۔اس لئے اْن کی بات ماننے میں ہی بھلائی ہے۔اگر نہیں مانتے تو ہمارا حال بھی اْس فن مچھلی جیسا ہوگا جس نے اپنے بڑوں کی بات نہ مانی اور آخر اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھی۔اس کے ساتھ ساتھ شیطان بھی ہر روز ہمیں آزماتاہے۔ وہ ہمیں نئی اور شاندار نظر آنے والی آزمائش میں ڈالنے والی چیزوں کو استعمال کرنے سے نہیں ڈرتا۔ وہ جھوٹ کا باپ ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہمیں خدا کے پیار سے محروم کر دے۔ آئیں ہم سب اپنے آپ سے یہ وعدہ کریں کہ ہم اپنے ایمان کا دفاع کرتے ہوئے مقدس پولوس رسول کی طرح اچھی کشتی لڑئیں۔ خداوند یسوع پر ایمان رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں۔ اپنے ماں باپ اور خدا کے وفادار بن کے رہیں تاکہ دْنیاوی زندگی میں اور اس دنیا کے بعد کی زندگی میں بھی کامیاب ہو سکیں۔