نو جو ا نو ں کا سال(2020-2019)
جہا ں ر ہنما ستاروں کی با ت ہو وہاں نو جو انو ں کی با ت نہ ہو یہ تو ممکن نہیں۔خا ند ا ن،مذ ہب اور معا شر ے میں نو جو ا نو ں کی ا ہمیت قبول کر تے ہوئے ا قو ا مِ متحد ہ نے 1985کو نو جو ا نو ں کا عا لمی سا ل قر ا ر دیا تھااوراس عا لمی ادارے کی ا پیل پر پو ر ی دْنیا میں سا ل 1985 نوجوانوں کے سا ل کے طو ر پر منا یا گیا۔اِس سا ل کو بھر پو ری کے سا تھ منا تے ہوئے پو ر ی دْنیا میں مختلف تقریبات،مذاکر ے اور سیمنارز منعقد ہوئے۔ملکِ پاکستان میں بھی اقوام متحدہ کی اپیل پر عمل کرتے ہوئے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر ۵۸۹۱ کو نوجوانوں کے سال کے طور پر منایا گیا۔اس سال کو منانے میں مسیحی قوم بھی پیچھے نہیں تھی۔مختلف یوتھ تنظیموں,ڈا یو سیز اور پیرشیز میں اس موضوع سے متعلق بہت سارے پروگرامز کا انعقاد کیا گیا۔کیتھولک کلیسیا نے ہمیشہ نوجوانوں کی خداداد صلاحیتوں اور خوبیوں کو سراہا ہے۔مقدس جان پال دوم نے 1985 میں دنیا بھر کے مسیحی نوجوانوں کو ایک مقام پر اکٹھا کرنے کے لئے ورلڈ یوتھ ڈے کا آغاز کیا۔تاکہ دنیا بھر کے نوجوانوں کو ایک دوسرے سے ملنے،ایک دوسرے کی ثقافت کو سمجھنے،رسم و رواج کو جاننے نیز ایک دوسرے کے ایمانی تجربے سے سیکھنے کا موقع ملے۔
پاپائے اعظم پوپ فرانسس نے جنوری 2019 میں پانامہ میں منعقد ہونے والے ورلڈ یوتھ ڈے کے موقع پر نوجوانوں کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: نوجوان دنیا کاآج اور حال ہیں۔انہوں نے مزید فرمایا :مسیحی نوجوان آج کی دنیا میں امن اور سلامتی کے خمیر ہیں۔اسی اہمیت کو جانتے ہوئے پاکستان کیتھولک بشپس کانفرنس نے نومبر 2019 سے لے کر نومبر 2020 تک کے عرصے کو نوجوانوں کا سال قرار دیا ہے۔ پاکستان کیتھولک بشپس کانفرنس کا یہ فیصلہ2018 میں روم میں منعقد ہونے والے اجلاس کی روشنی میں ہوا۔نوجوانوں کے سال کے لیے مرکزی آیت ا شعیاء نبی کے صحیفے سے لی گئی ہے۔ آیت ہے, میں حاضر ہوں مجھے بھیج۔ یقینا خدا آج بھی نوجوانوں کو بلاتا ہے تاکہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو خدمت کے کاموں میں استعمال کریں۔سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ نو جوان کا مطلب کیا ہے؟ نوجوان کا مطلب ہے نیا، زندگی اور جوش سے بھرا ہوا۔ نوجوان تبدیلی اور زندگی کا دوسرا نام ہے۔ نوجوان ہر قوم کی زندگی ہوتا ہے اور زندگی سے تو ہر کوئی محبت کرتا ہے۔تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ہمیں نوجوانوں کے بڑے بڑے کارنامے نظر آتے ہیں۔ بائبل مقدس کی بات کریں تو اس میں پرانے عہدنامے میں حضرت یوسف،موسی، ہارون، یو شع اور داؤد کی زندگیوں پر غور کرنے سے ہمیں نوجوانوں کی اہمیت اور خدمت واضح ہو تی ہے۔نئے عہدنامے میں ہمارے نجات دہندہ خُداوند یسوع مسیح خود ایک نوجوان قائد کی صورت سے ابھرے،تاریکیوں کو مٹا کر روشنیاں کرتے رہے اور منصوبہ نجات تکمیل کو پہنچایا۔
علامہ اقبال مفکرِ پاکستان جنہیں شاعرِ مشرق بھی کہتے ہیں انہوں نے اپنی شاعری میں نوجوانوں کو شاہین سے تشبیہ دی ہے۔ انہوں نے کہا
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
بانی ِپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی نوجوانوں سے بے پناہ محبت کرتے اور انہیں قوم کا فخر اور انمول خزانہ سمجھتے تھے۔ نو جوان ہر قوم کے لئے نہایت قیمتی موتی کی مانند ہیں انہیں معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی تسلیم کیا جاتا ہے۔دنیا کی ہر قوم اپنے نوجوانوں کی تربیت کرتی ہے۔ تاکہ قوم کا مستقبل مضبوط بنیادوں پر استوار کر سکیں کیونکہ نوجوانوں کے بازوؤں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ سنگلاح پہاڑوں کو توڑ سکتا ہے اور نوجوانوں کا جوش مارتا ہوا لہو جب قوم کے لئے اْبلتا ہے تو یقینا تبدیلی آتی ہے۔مو جودہ دور کے نازک حالات میں ہماری قوم کو بھی ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے اور اسی لئے ہمارے بشپ صا حبان نے اس سال کو نوجوانوں کے نام منسوب کیا ہے تاکہ ان کی بات کو توجہ سے سن کر اس کا حل تلاش کیا جائے اور نوجوانوں کی بہتر طور پر رہنمائی کی جا سکی۔ ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ نوجوانوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے اور نوجوان ایسے رہنماؤں اور ایسے پلیٹ فارم کے منتظر ہیں جو ان کی سوچ کو ایک درست سمت دے سکیں۔
ایک سندھی دانشور کا قول ہے :کہ جب اندھیرا بڑ ھ جائے تو اندھیرے کی وجوہات پر بحث کرنے کی بجائے ایک دیا جلا دینا چاہئے اور اس سال کو نوجوانوں کا سال قرار دے کر ہمارے بشپ صا حبان نے بھی ایک دیا روشن کیا ہے اور اب یہ نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ اس وقت کو اپنے لئے پْرمعنی بنائیں اور اس دیے کی روشنی سے اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو روشن کریں۔ ایک اندازہ کے مطا بق د نیا کی آبادی کا ۰۶ فیصدحصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے نو جو ا ن ماضی اور حال میں رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں اور یہی نوجوان پرانی اور نئی نسل کو ملانے کا ذریعہ ہیں۔ نوجوانی کی عمر زندگی سے بھرپور ہوتی ہیں۔ جب جذبات جوان ہوتے ہیں۔ رگوں میں بجلیاں دوڑتی ہیں۔ خون گرم ہوتا ہے، ارادے مضبوط ہوتے ہیں،عزائم بھرپور ہوتے ہیں۔ خوف خود نوجوانوں سے خوف کھاتا ہے، جرا تیں انکی کمال ہوتی ہیں اور موت ان کو پریشان نہیں کرتی۔اب سوال یہ ہے کہ نوجوان کو ن ہیں؟ نوجوان وہ ہیں جو طوفا نو ں کی زرد سے گلشن کو بچائیں،جو سازِ زندگی سے نغمہ سْنائیں،راہ کی تاریکیاں مٹائیں، جن کی ہمت میں فولاد ہو، جن کے ارادوں میں ولولہ ہو، جو مثبت سوچ کا حامل ہو، جو محنت کا عادی ہو، بزرگوں کا ادب کرنے والا اور بڑوں کی عزت کرنے والا ہو،جو ترقی پسند ہو، وقت کی قدر کرتا ہو، جو دوسروں کا مددگار ہو، موجودہ دور میں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔طوفان ِنو ح کی کہانی سے تو سبھی آگاہ ہیں تو نوجوانوں کو اگر اس فا ختہ کی مانند کہا جائے جسے حضرت نوح نے کشتی سے باہر بھیجا تاکہ دیکھے کہ روئے زمین پر سے پانی اتر گیا ہے یا نہیں تو بے جا نہ ہوگا۔کیونکہ فاختہ نے اپنے مشن کو بخوبی نبھایااور جب وہ واپس آئی تو اس کی چو نچ میں زیتون کی ڈالی تھی جو کہ امن اور زندگی کی علامت ہے.نوجوان بھی زیتون کی شاخوں اور امن کی فاختہ کی مانند ہیں۔
پاپائے اعظم پوپ فرانسس اول نوجوانوں سے بڑے پرْامید ہیں۔ وہ نوجوانوں کے نام اپنے پیغام کے ابتدائی جملوں میں لکھتے ہیں کہ خدا محبت ہے جو ہر بشر کو بے پناہ پیار کرتا ہے اور یہ پیغام مسیحی ایمان کا نچوڑ ہے۔ مزید فرماتے ہیں جوانی عطیہِ خداوندی ہے، جوانی مبارک گھڑی ہے،جوانی خوشی ہے، جوانی اْمید کا ترانہ ہے، جوانی خواب دیکھنے اور خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کا وقت ہے۔ نوجوانوں کو اپنی منزل حاصل کرنے کے لیے بامقصد زندگی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ مقصد کے بغیر زندگی میں کوئی امید نہیں اور امید کے بغیر زندگی میں کوئی یقین نہیں کیوں کہ جب ہم یقین کے ساتھ کوئی کام شروع کرتے ہیں تو اپنی زندگی کا مقصد بھی پا لیتے ہیں۔کہتے ہیں نہ ہمتِ مرداں مددِ خدا، یقینا جب ہمارے ارادے مضبوط ہوں گے، نیت صاف ہو گی اور بھروسہ خدا پر ہو گا تب ہم ترقی کریں گے۔ جب ہم مضبوط عزم رکھتے ہوں تو خدا بھی ہمارا مددگار ہوتا ہے تا کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں کیونکہ بامقصد زندگی گزارنا ہی سب کچھ ہے۔تقدس مآب بشپ ڈاکٹر جا ن جوزف نے نوجوانوں کے بارے میں کیا ہی خوبصورت بات کہی انہوں نے فرمایا: تاریخ گواہ ہے کہ نوجوانوں نے ہمیشہ قوموں کی ترقی میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔جس قوم کے نوجوان مستحکم اور نیک جذبے رکھتے ہوں وہ قوم زندگی کی شاہراہ پر قوموں کی قیادت کرتی ہے۔
تقدس مآب بشپ سیمسن شکر دین نے نوجوانوں کے لیے اپنے پیغام میں فرمایا:کہ پاکستان میں نوجوانوں کا سال ہمارے مستقبل کو بہتر بنانے، نوجوانوں کا خاص خیال رکھنے،ان کی بات سننے، ایمانی سفر میں ان کے ساتھ رہنے اور روحانیت میں بڑھنے میں ان کی مدد کرنے کا وقت ہوگا۔نیز یہ سال ہم سب کے لئے بھی نوجوانوں کے ساتھ اور نوجوانوں کے لیے کام کرنے،ایمانی نشوو نما میں ان کی مدد کرنے اور مستقبل کو سنوارنے کا وقت ہے۔
کارڈینل جوزف کوٹس نے ایک صحافی کے جواب میں فرمایا: ہم پاکستان میں اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نوجوانوں کی بات کو توجہ سے سنا جائے۔اگر ہم نوجوانوں کو توجہ سے سنیں گے تب ہی ہم ان کے مسائل جان سکیں گے، انہیں جواب دے سکیں گے اور ان کے مسائل کا حل نکالتے ہوئے آگے بڑھنے میں ان کی رہنمائی کر پائیں گے.
فضیلت مآب آرچ بشپ سبیسٹن فرانسیس شاء جو کہ مسیحی نوجوانوں کی تعلیمی، سماجی، معاشرتی، خاندانی اور ایمانی زندگی میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنے پیغام میں فرمایا: اے میرے نوجوانوں یہ سال تمہارا ہے۔ اس سال پہلے سے زیادہ محنت کرنی ہے۔ دوسروں سے توقعات کم ا پنی محنت اور خدا کی برکت پر بھروسہ رکھنا ہے۔ تم ہی کلیسیا کا فخر ہو اور وطن کا مستقبل۔خدا کرے تم کلیسیا، قوم اور وطن کے لیے ہمیشہ فخر اور خوشی کا باعث بنو۔ پاک ماں کلیسیا نوجوانوں کے لیے بہت فکرمند ہے تاکہ ان کی توانائیوں اور سوچ کو مثبت سمت دی جائے۔ والدین، اساتذہ، ادیبوں، شاعروں اور لکھاریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کے خیالات، نظریات، جذبات اور ا ن کے مسائل پر اپنا قلم اٹھائیں۔ تاکہ ملک وقوم نوجوانوں کی کاوشوں فیض یا ب ہوسکیں۔
ایک چینی کہاوت ہے: جب ہم ایک بیج بوتے ہیں تو ایک ہی فصل حاصل کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم تعلیم کی فصل بوتے ہیں تو سینکڑوں فصلیں حاصل کرتے ہیں۔اس لئے نوجوانوں زندگی میں کچھ کرنے کے لیے،کچھ بننے کے لیے تعلیم حاصل کریں۔ ہنرمندی کی طرف آئیں،کوئی ٹیکنیکل کام سیکھیں۔ خوب محنت کریں یقینا کامیابی آپ کے قدم چومے گی اور آپ اْ فق پر روشن ستارہ بن جائیں گے۔ اب جوانی کے اس عظیم تحفے سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ا بد ی خوشیاں اور زندگی حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہیں۔ان موجودہ حالات میں ضرورت ہے کہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھارا جائے اور درست سمت دی جائے تاکہ اپنی خوبیوں کا مثبت استعمال کرتے ہوئے ملک و قوم کا روشن مستقبل بن جائیں۔