میں جو ٹھہرا ایک مرد!
یہ سب اتنی جلدی میں ہوا کہ میں سوچ بھی نہ سکا کہ یہ سب کیا ہے۔ مجھے ایک منٹ بھی نہیں ہوا تھا اس عورت کے حجرے میں اس کی آغوش میں لیتے ہوئے۔کہ اچانک ہی کوئی ایک درجن لوگ دروازہ توڑ کر اندر گھس آئے اور انہوں نے ہمیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔وہ لوگ مجھ میں خاص دلچسپی نہیں رکھتے تھے انہوں نے مجھے ایک کونے میں دھکیل دیا اور بمشکل اس عورت کو کپڑے پہننے کی مہلت دی اور اْسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ وہ چیختی رہی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ زنا کاری کی سزا شریعت کے مطابق بس موت ہی ہے۔میں پہاڑ کی طرح منجمندیہ سب دیکھتا رہا۔میں اس کی مدد بھی نہ کر سکا۔اس کے باوجود کہ میں بھی ایک فریسی سکول کا طالب علم تھا۔ اور جانتا تھا کہ مجھے اپنی جنسی خواہشات سے باز رہنا ہے۔ورنہ میرے ساتھ بھی وہی سلوک ہو سکتا ہے جو فریسی اْس عورت کے ساتھ کرنے جا رہے تھے۔ شاید انہوں نے مجھے فریسیوں کے سکول میں کہیں دیکھ لیا ہوگا۔ لیکن مجھ پر یہ احسان کیوں؟میں نے اسی اْلجھن میں کپڑے پہنے اور ان فریسیوں کے پیچھے ہو لیا۔ وہ عورت کا نپتی ہوئی میرے ہم پیشہ لوگوں کے قدموں میں گرِ کر معافی مانگتی رہی۔ میں بھی خاموشی سے ان کے پیچھے ہی ہجوم میں چھپ کر چلتا رہا اسی پریشانی میں کہ کہیں شریک ِزناکاری کے جرم میں مجھے موت کا فتویٰ ہی نہ دے ڈالیں جیسا اس عورت کے ساتھ ہونے والا تھا۔میں نے اپنے آپ کو چھپانے کے لئے اپنا چہرہ چادر سے ڈھانپ لیا اور جب ہجوم کے لوگ پتھر اکٹھے کر رہے تھے تو میں نے بھی اپنے پاؤں کے نزدیک پڑا ہوا نوکدار بڑا سا پتھر اٹھا لیا۔ تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ میں بھی انہی میں سے ہوں۔اس سوچ کے ساتھ کہ یہ نوکدار پتھر اْس عورت کے سر پر لگتے ہی وہ مر جائے گی اور میں بھی زنا کے جرم سے آزاد ہو جاؤں گا۔
کیونکہ اس عورت کے مرنے سے اسکے گناہ کی عینی گواہ بھی ختم ہو جائے گی۔مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ میں اس عورت کے ساتھ جرم میں برابر کا شریک ہوں، مگر کیا مردوں کو اس کی سزا دی جاتی ہے؟ اس کی کوئی مثال تاریخ میں تو نہیں ملتی۔ اس لئے میں اندر ہی اندر مطمئن تھا مگر قصورواری کا احساس مجھے اندر ہی اندر کھائی جا رہا تھا۔وہ فریسی اْس عورت کو یسوع کے پاس لے گئے یہ دیکھنے کے لیے کہ یسوع اْس عورت کی کیا سزا تجویز کرتا ہے؟ میں کونے میں کھڑا یسوع کی بحث اْن فریسیوں کے ساتھ سنتا رہا۔فریسی اس بات پر زور دے رہے تھے کہ موسوی شریعت کے مطابق اس عورت کو سنگسار کیا جانا چاہیے۔ یسوع کچھ دیر خاموش کھڑا رہا۔ پھر اْس نے بھی ایک پتھر اْٹھا لیا۔ سارا ہجوم اس کے ہاتھ میں پتھر دیکھ کر حیران ہو گیا کہ آج یسوع زنا کار عورت کو پہلا پتھر مارے گا۔وہ عورت یسوع کے قدموں میں گرِ پڑی اور اپنے آنسوں سے مٹی بھگوتی رہی۔ وہ لوگ جو یسوع سے جواب مانگ رہے تھے اس کے ہاتھ میں پتھر دیکھ کر خاموش ہوگئے۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد یسوع نے ہجوم پر ایک نظر ڈالی۔ ایک دم اْس کی نظر میرے اوپر آ کر تھوڑی دیر کے لئے رک گئی،حالانکہ میں لوگوں کی نظر سے اوجھل تھا۔ ایک پل ایسا لگا کہ یسوع مجھے شریکِ جرم میں آگے بْلالے گا۔ میں نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ پھر یسوع نے بلند آواز سے کہا:ہاں ٹھیک ہے کہ شریعت کہتی ہے عورت کو سنگسار کیا جائے، مگر اس کو وہی پتھر مارے جس نے کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ سب لوگ ایک ایک کر کے آگے بڑھتے اور یسوع اْسی پتھر سے اْن کے گناہ زمین پر لکھتاگیا۔میں ایسی جگہ کھڑا تھا کہ میں اس کی تحریر آسانی سے پڑھ سکتا تھا،زناکار،چور،منافع خور،جھوٹا،دغاباز غیرہ۔ یہ سب لوگوں کے گناہ تھے سب اپنے اپنے گناہ دیکھ کر ہجوم سے نکلتے رہے۔ میری باری آخر میں تھی،میں نے اپنے قدم آگے بڑھائے تو میرا جسم ایک دم سرد ہوگیا۔ہاتھ میں پکڑا ہوا پتھر میرے لئے بوجھل ہو گیا۔ میں نے اسے اتنی زور سے دبایا کہ اس کے کونے میرے ہاتھ کے اندر چبھ گئے اور میرے ہاتھ سے خون بہنے لگا۔ یسوع کی آنکھوں کی ایک جھلک میرے سینے میں گھس گئی۔
ایسا لگا کہ وہ ابھی میرا گناہ بھی زمین پر لکھ دے گا کیا؟ شریک ِ زناکاری۔ میں نے پتھر کو زمین پر پھینکا اور دھیمے دھیمے یسوع کی آنکھوں سے اوجھل ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن ایسا لگا کہ اْس کی آنکھیں میرا پیچھا کر رہی ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ہجوم غائب ہو گیا۔ سارے لوگ اپنے اپنے گناہوں کا بوجھ اپنے ساتھ لیے وہاں سے غائب ہوگئے۔یسوع زمین سے اْٹھ کر اس عورت کے پاس گیا اور پوچھا کہاں ہیں تجھ پر الزام دینے والے؟ میں بھی تجھ پر الزام نہیں لگا تا،جا اور آئندہ گناہ نہ کرنا۔جب میں نے یہ سنا تو مجھے ایسا لگا کہ یسوع یہ سب مجھ سے کہہ رہا ہے کہ۔۔ جا اور آئندہ گناہ نہ کرنا۔مگر حیرانی کی بات یہ تھی کہ فریسیوں نے عورت کو توپکڑ لیا مگر مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ اس لیے کہ میں جو ٹھہرا ایک مرد۔۔۔۔!