سننا بولنے سے بہتر
خدا نے انسان کو دو کان اور ایک ہی زبان کیوں دی؟شاید ہم نے کبھی اس بارے میں سوچا بھی نہیں۔ اس لئے دو کان اور ایک زبان عطا کی تاکہ انسان بولے کم اور سنے زیادہ۔
آپ میں سے اکثر لوگوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا ہو گا کہ سننا بولنے سے بہتر ہوتا ہے۔ ہمارے سماج میں بولنے کا عمل خوبی میں شمار ہوتا ہے۔ اگر کوئی دس آدمی کے بیچ میں اپنی بات رکھ لے تو اسے ہیرو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ اکثر لوگ سننا ضروری نہیں سمجھتے ہیں جب کہ فطرت کے قانون میں پہلے سننا ہے اور بعد میں بولنا ہے۔ ایک بچہ پیدا ہوتے ہی بولنے نہیں لگتا۔ وہ سالوں تک پہلے ہر ایک کی بات غور سے سنتا ہے پھر بولنا شروع کرتا ہے۔
فطرت کا یہ قانون بتاتا ہے کہ سننے کا کام پہلے اور بولنے کا کام بعد میں کرنا ہے۔ انسان فطرت کے اس قانون کو بھول کر عملی زندگی میں سننے سے پہلے بولنا چاہتا ہے۔ آپ جب بھی سنے بغیر بولیں گے تو یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ایسی بات کر جائیں جس کے لیے آپ کو بعد میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔
گفتگو کے دوران زیادہ سننے اور کم بولنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ بطور سامع اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔ جب آپ بول رہے ہوتے ہیں تو فکری سطح پر آپ جہاں ہوتے ہیں وہیں رہتے ہیں۔ بولتے ہوئے آپ کے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ دوران گفتگو آپ نے کسی کا کچھ نہیں سنا تو آپ کی بات میں بھی ایسا کچھ نہیں ہو گا جس سے دوسرے محظوظ ہوں۔ آپ گھنٹوں بولتے رہیں گے تو بھی آپ کی بات اثر انگیز نہیں ہوگی۔ سْنے بِنا بولنا در اصل بنا سوچے بولنا ہے۔سننا بولنے کے برعکس عمل نہیں ہے۔ سننا در اصل بولنے سے قبل بولنے کی تیاری کرنا ہے۔ سن کر بولنا مکمل تیاری کے ساتھ بولنے کا ایک عمل ہے۔ جب آپ ہمہ تن گوش ہوتے ہیں تو فکری سطح پر آپ ہر لمحہ بدل رہے ہوتے ہیں۔ سننا علم میں مسلسل اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ سننے کا عمل آپ کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ آپ حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ اپنی معلومات کو سامنے رکھ کر کریں اور ایک بہتر نظریہ قائم کریں۔ سن کر بولنا در اصل سوچ کر بولنا ہے۔
گفتگو کے دوران زیادہ سننا آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ آپ زیادہ موثر انداز میں بات کر سکیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں:
A good listener is a good Speaker
جس کے اندر سننے کی صلاحیت اچھی ہوتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر بولنے کی صلاحیت بھی اچھی ہے۔آپ سن کر بولتے ہیں تو آپ کی گفتگو سب کی گفتگو ہو جاتی ہے۔ وہ صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتی، اس میں معنی اور مفہوم بھی ہوتے ہیں۔ آپ دوسروں کو سنتے ہیں تو دوسرے بھی آپ کی گفتگو میں دلچسپی لیتے ہیں۔ جب آپ بنا سنے ہوئے بولتے ہیں تو آپ کی گفتگو میں صرف آپ ہی موجود ہوتے ہیں۔ وہ معنی سے خالی ہو جاتی ہے اور سننے والے بور ہوتے ہیں۔
آپ روز ہی ایسے لوگوں سے ملتے ہوں گے جو دوران گفتگو آپ کا ایک لفظ نہیں سنتے ہیں۔ وہ خود ہی طے کر لیتے ہیں کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے اور خود ہی اس کا جواب بھی دینے لگتے ہیں۔ وہ سارا وقت بولتے رہتے ہیں اور اتنا بولتے ہیں کہ بولتے بولتے بھٹک جاتے ہیں۔ ان کے ایک گھنٹے کی گفتگو میں مشکل سے ایک یا دو منٹ کی گفتگو کام کی ہوتی ہے۔ وہ زیادہ بول کر اپنا بھی وقت ضائع کرتے ہیں اور دوسروں کا بھی۔
لہٰذا خود کو سننے کی عادت ڈالیں تاکہ جب آپ کے بولنے کا وقت آئے تو بہتر اور موثر طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں اور سننے والے اپنی دلچسپی بھی برقرار رکھیں۔