بوڑھے کانوجوان کو جواب
جب بھی کوئی نیا قدم اْٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ ہمیں اپنے لئے نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کیلئے راہ ہموار کرنی ہے، بھلا ہماری عمر کتنی بھی ہو۔ اگر گھر کا سر براہ مضبوط گھر بناتاہے تو اْس کے بچوں کے بچے اْسی گھر میں رہتے ہیں۔ ایک باپ اگر کوئی درخت لگا تا ہے تو اس کا پھل آنے والی نسلیں کھاتی اوربرسوں اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھتی ہیں۔
ایک نوجوان مسافر کا ایک گاؤں میں جانا ہوا تو اس نے راہ چلتے ہوئے ایک عمر رسیدہ شخص کو ہاتھ میں کْھرپالئے گھر کے باہر بیٹھا دیکھا۔ اسے تجسس ہوا۔ آخر یہ بوڑھا اس کھرپے سے کیا کرے گا؟ اسی اثنا میں بوڑھے نے لرزتے ہاتھوں سے زمین کا کچھ حصہ کھودا، لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا ہوا چند قدم کے فاصلے پر بنی نرسری گیا اور آم کا چھوٹا سا پودا اْٹھا لایا۔ اب کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے پودا زمین میں رکھا۔مٹی برابر کی اور اسے پانی سے سیراب کر دیا۔ یہ سب کام سر انجام دینے کے بعد بوڑھے کے جھریوں بھرے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ خوشی سے جیسے اس کے بوڑھے وجود میں توانائی کی لہر دوڑ گئی۔
نوجوان جو کافی دیر سے بوڑھے کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے قریب آیا اور بولا:بڑے صاحب! اگر آپ بْرا نہ مانیں تو ایک بات عرض کروں؟
بڑے میاں نے چندھیائی ہوئی نگاہوں سے نوجوان کو دیکھا اورہاں میں سر ہلا یا۔
نوجوان نے نہایت ادب سے کہا: آپ نے نہایت محنت اور توجہ سے یہ پودا لگایا اور اسے لگانے کے بعد،میں نے آپ کے چہرے پر اطمینان اور سکون دیکھا۔ جس وقت یہ پودا تناور درخت بنے گا اور پھل دے گا تو کیا آپ دنیا میں ہوں گے؟ ایسا کام جو آپ کو نفع نہ پہنچا سکے اس میں اتنی دلچسپی آخر کیوں؟
بوڑھے نے مسکراہٹ کے ساتھ نوجوان کو جواب دیا:مجھے معلوم ہے جب یہ پودا پھل دار درخت میں تبدیل ہو گا تو میرا جسم منوں مٹی تلے دب کر خود بھی مٹی میں تبدیل ہو چکا ہو گا۔ بیٹا، یہ خوشی میری ذات کے لئے نہیں ہے۔ میں نے جب پودا لگا دیا تو میں نے چشم تصور سے دیکھا کہ میری اولاداور میری اولاد کی اولاد اس درخت سے فائدہ اْٹھا رہی ہے۔
اس کی چھاؤں میں بیٹھ کر دھوپ سے محفوظ ہو رہی ہے اور اس کے میٹھے پھل کھا رہی ہے۔ میری مسکراہٹ، میری خوشی اپنی نسل سے وابستہ ہے۔ میں نے سوچا کہ میرے اس کام سے میری اگلی نسل کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
نوجوانو! آپ بھی کچھ ایسا کریں، جس کا پھل دوسرے تو کھائیں گے لیکن شاید زندگی میں آپ بھی اُس کا نتیجہ دیکھ سکیں۔