ایک خط ماں مریم کے نام!
سلام اے پْرفضل ماں! میں ایمان رکھتا ہوں کہ آپ آسمانوں پر رہنے کے باوجود بھی ہر پل ہمارے ساتھ ہی ہیں اور ایک پل بھی آپ ہم سے جدا نہیں۔ آج مجھے کچھ پریشانی تھی،مشکل میں تھا یعنی میں دْکھ میں تھا۔ مجھے ماں جی آپ کے وہ دْکھ یاد آگئے جو آپ نے ہماری خاطر برداشت کیے۔آپ کے دْکھ ہاں جی بالکل آپ کے دْکھ!ماں جی بے شک ہم اسے یسوع مسیح آپ کے بیٹے کے دْکھوں کے نام سے یاد کرتے ہیں مگر حقیقت میں وہ سب دْکھ آپ کے ہی تھے نا! کیونکہ جب بیٹا تکلیف اْٹھائے اور پھر بیٹا بھی اکلوتا ہو تو ماں کا دْکھ چوگناہو جاتا ہے۔ درد بیٹے کو ہو تو کلیجہ ماں کا پھٹ جاتا ہے۔مگر اے پیاری ماں! آپ نے ہماری خاطر سب کچھ برداشت کر لیا۔اپنا اکلوتا بیٹا اپنی آنکھوں کے سامنے صلیب پر مرتا دیکھا۔صرف ہماری خاطر، آپ ہمیں کتنا پیار کرتی ہیں اس کا تو ہم حساب بھی نہیں لگا سکتے۔ ایسا پیمانہ ایجاد ہی نہیں ہوا جس سے ہم اس پیار کو ماپ سکیں۔ اے ماں جب تیری بیٹے کو کوڑے مارے گئے تو اس کی ساری تکلیف آپ کے بدن کے پور پور میں اْتر گئی ہو گی۔ وہ تھپڑ میرے مسیحا کو مارتے ہوں گے لیکن اْس کے نشان آپ کے چہرے پر آ جاتے ہوں گے۔
آپ کے بیٹے کا بہتا لہو آپ کے جسم میں موجود خون کی بوند بوند کو نچوڑ دیتا ہوگا۔ ساری رات آپ اپنے بیٹے پر ظلم ہوتا ہوا برداشت کرتی رہیں۔ تب آپ یسوع کے بچپن کی راتیں یاد کرتی ہوں گی جب آپ اسے لوری دے کر اپنے سینے سے لگا کر اپنی باہوں کے حصار میں لے کر میٹھی نیند سلاتی تھی۔ مگر اب آپ اتنی بے بس ہو گئی تھی کہ ایسا کچھ بھی نہیں کر پا رہی تھی۔آپ کا دل بہت کرتا ہوگا کہ بھاگ کر اپنے بیٹے کو اپنی باہوں میں چھپا لیں لیکن ایسا کرنا ناممکن سا ہو گیا ہوگا۔ جب رات کے پچھلے پہر آپ کی نظریں اپنے بیٹے کی نظروں سے ملتی ہوگی تو آپ دونوں ایک دوسرے سے نظر بچانے کی کوشش کرتے ہوں گے۔
کیونکہ نہ تو آپ اپنے بیٹے کی تکلیف برداشت کر رہی تھی نہ آپ کا بیٹا آپ کو دْکھ میں دیکھ سکتا تھا۔ اور اس پر ایک اور قیامت کے اب انھوں نے آپ کے پیارے لاڈلے بیٹے کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھ دیا تھا۔یہ سب دیکھ کر یقینا آپ خون کے آنسو رو رہی ہوں گی مگر ہماری محبت میں آپ نے یہ سب کچھ برداشت کیا۔ آخر اس کشمکش میں دن چڑھا مگر آپ کے لئے تو دن بھی اندھیری رات ہی کی مانندتھا۔کیونکہ صبح ہونے میں بھی آپ کی زندگی اندھیروں میں ڈوبتی جارہی تھی۔ان ظالموں نے آپ کے بیٹے کے کندھوں پر اتنی بھاری صلیب رکھ دی جسے اْٹھا کر چلنا اس کے لیے محال ہوتا جا رہا تھا۔ جب وہ گرِتا ہو گا ماں، آپ کے قدم ڈگمگا جاتے ہوں گے۔ جب کبھی وہ بچپن میں گِر جاتا تھا تو کتنی تکلیف اور پریشانی کے عالم میں اْسے اْٹھانے کیلئے بھاگ کر جاتی ہوں گی۔ لیکن آج وہ آپ کے سامنے اتنی بھاری صلیب کے بوجھ سے تین بار گرِا۔ لیکن آپ کچھ نہ کر سکتی تھی حالانکہ دل تو چاہتا ہو گا کہ آپ ہجوم کے سمندر کو چیرتی ہوئی اپنے بیٹے کے پاس پہنچ جائیں اور پھر سے بچپن کی طرح اپنی باہوں میں اسے بھر کر اپنے گھر لے آتی۔ اس کے جسم پر لگی چوٹ کو صاف کرتی مگر ایسا نہیں ہو رہا تھا۔ اس وقت آپ دونوں کی حالت کیا ہوگی جب آپ اپنے بیٹے سے ملی ہوں گی تو اْس وقت کتنے ہی سوالوں نے جنم لیا ہوگا۔ جس کا جواب شاید آپ دونوں کے پاس نہیں تھا۔ آپ لازمی پوچھتی ہوں گی کہ اے بیٹے تو کس راہ پر چل پڑا۔یہ راستہ کب تیرے لیے چنا گیا۔ وہ جو دوسروں کے دْ کھ دور کر دیتا تھا۔وہ جس نے ایک بیوہ پر ترس کھا کر اْس کا اکلوتا بیٹا زندہ کر دیا لیکن آج اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا خود اپنی صلیب اْٹھائے چل رہا تھا۔ آپ دونوں کتنے بے بس محسوس کر رہے ہوں گے۔ اس دوران کسی ظالم سپاہی نے میرے یسوع کو دھکیلا ہوگا کہ تیز چلے اور وہ پھر موت کے سفر پر چل پڑا ہو گا۔آپ بھی اس کے پیچھے پیچھے چلی جاتی ہوں گی آخر وہ مقام بھی آ ہی گیا جہاں ان ظالموں نے آپ کے بیٹے کو آپ سے جدا کر دیا۔
پھر صلیب پر لٹکا کرآپ کے بیٹے کو آپ کے سامنے ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھوکنے شروع کر دیے۔جب جب ہتھوڑالگتا ہوگا اْس کی دھمک آپ کے دل میں اْترتی ہوگی۔ آپ دْکھ اور بے بسی میں صرف اپنی مٹھیوں کوبھینچ لیتی ہوں گی۔ اس وقت یقینا آپ کو ایسا لگتا ہوگا کہ اب میرا دم بھی نکل جائے گا۔صلیب سیدھی کرکے آپ کے بیٹے کو فضا میں تڑپنے اور مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ وہ سب ظالم صلیب کے نیچے کھڑے یہ منظر بڑی خوشی سے دیکھ رہے تھے۔ اے پیاری ماں اب تو آپ کے حوصلے اور صبر کی انتہا ہوگئی ہوگی۔ کیونکہ اب تو آپ کے بیٹے کی جان نکلنے کا انتظار کیا جارہا تھا۔ مگر بیٹے کو آپ کی اب بھی فکر تھی کہ آپ اکیلی کیا کریں گی؟کہاں جائیں گی؟ کس کے ساتھ رہیں گی؟ اسی سوچ کے ساتھ یسوع نے آپ کو اپنے پیارے شاگرد یوحنا کے سپرد کیا اور اْس کو آپ کے سپرد کیا۔ ان سب کے بعد ماں جی صبر کی انتہا تو تب ہوئی ہوگی جب یسوع نے کہا کہ میں پیاسا ہوں اور ظالموں نے اْسے پینے کو سرکا دیا۔اس وقت آپ بے بس تھیں کہ اپنے بیٹے کو دو بوند پانی بھی اپنے ہاتھ سے نہیں پلا سکتی تھیں۔ آپ کا بیٹا جو لوگوں کو زندگی کا پانی پلانے کے لیے دنیا میں آیا،آج وہ خودپیاسا تھا۔آخرکار ہمارے گناہوں کے بدلے آپ کے اکلوتے بیٹے نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اپنی جان اپنے باپ کو سونپ دی۔ مگر ان ظالموں کو اب بھی یقین نہیں تھا یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ واقعی مر گیا ہے انہوں نے اس کی پسلی میں نیزہ مارا اور اس کا خون پانی بن کر فوارے کی صورت میں نکلا۔ اے ماں آپ نے ہماری خاطر کتنے دکھ برداشت کیے ہیں۔ اب تو آپ پر دکھوں کا پہاڑ آگرِا ہوگا۔ جب اے پیاری ماں آپ کے بیٹے کی لاش آپ کی جھولی میں ڈال دی گئی ہوگی۔ آپ کتناتڑپی ہوں گی۔کیسے اپنے بیٹے کے زخموں کو صاف کرکے چومتی ہوگی۔ آپ کتنا روئی ہوں گی۔ اس کے بچپن کو یاد کرکے کہ وہ آپ کی جھولی میں لیٹ کر میٹھی نیند سو تا تھامگر آج وہ بالکل خاموش تھا۔
ماں جی اس وقت آپ کو ہیکل میں کی گئی بزرگ شمعون کی بات یاد آئی ہوگی جب اْس نے کہا تھا کہ دیکھ تیری اپنی جان سے تلوار گزر جائے گی۔ واقعی ماں جی! آج تو آپ کی جان میں سے تلوار ہی گزر گئی کہ آپ کا جوان اکلوتا بیٹا آپ کی جھولی میں مردہ پڑا تھا اور آپ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھیں۔بس بے بسی کے عالم میں صرف اس کے زخموں کو دیکھتی جاتی تھیں مگر اس کے زخموں سے زیادہ زخم تو آپ کے دل پر لگے تھے۔ آپ کتنی عظیم ہیں ماں! آپ نے ہماری خاطر کتنے دکھ سہے تاکہ ہم سب گناہ اور موت سے نجات حاصل کر سکیں۔
یہ تمام دْکھ آپ نے خدا کی رضا کو جانتے ہوئے برداشت کیے کیونکہ آپ کو پتا تھا کہ آپ کا بیٹا خدا کا بیٹا ہے وہ خود خدا ہے۔آپ سب جانتی تھیں کہ اْس کے مرنے اورجی اُٹھنے سے کل کائنات کو زندگی اور نجات ملے گی۔ اس لیے آپ نے اْس کے دْکھوں، اذیتوں اور صلیبی موت کے قرب انگیز واقعات کے دوران دلیر اور بہادر خاتون کی طرح ڈٹ کر کھڑی رہیں۔ اسی لئے تو ماں جی آج بھی ساری دنیا آپ کو مبارک کہتی ہے اور کہتی رہے گی۔نادان ہیں وہ لوگ جو آپ کی عظمت کے انکاری ہیں۔ یہ سب دْکھ تو آپ کے بیٹے نے سہے مگر ان کی سب سے زیادہ تکلیف تو آپ ہی نے برداشت کی۔ صرف ہماری محبت کیلئے اور ماں جی آپ یقین کریں کہ آپ کے دْکھ گنتے گنتے میں اپنا دْکھ بھول گیا ہوں یعنی آج بھی آپ نے میرے دْکھوں پر اپنے درد کا مرہم رکھ دیا اور مجھے آرام، تسلی اور اْمید عطا کر دی ہے۔
آپ کا بے حد شکریہ ماں جی!