آؤ برکتیں بانٹیں
ایک لڑکی جس کی ماں اْس کے بچپن میں ہی وفات پاگئی۔وہ اپنے بچپن سے یہی سنتی چلی آ رہی تھی کہ صحن میں، انار کا درخت اسکی ماں کے ہاتھوں کا لگایا ہوا ہے۔جبکہ ماں کو دُنیا سے گئے کئی برس بیت چکے تھے اسے ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا۔پھل کے بوجھ سے ٹہنیاں جھک کر زمین تک پہنچ جاتی تھی کہ ایک عام قد کا انسان ہاتھ بڑھا کر آسانی سے انار توڑ سکتا تھا۔ماں کے چلے جانے کے بعد گھر کا نظام بھابھی نے سنبھالا۔
ایک مرتبہ اْس لڑکی کے شوہر نے بیوی سے فرمائش کی، سنا ہے آپکے گھر جو انار لگتے ہیں، بہت ذائقہ دار ہیں۔کسی دن چند انار توڑ کر لائیے ہم بھی تو چکھیں۔اگلے ہی دن وہ ماں کے گھر گئی اور چپکے سے چند انار توڑلئے۔اسی اثنا میں بھابھی نے درخت کی قریب کی شاخوں کو دیکھا اور شور مچانے لگی۔یہاں سے انار کس نے توڑے؟
اور انار توڑنے والے کو بْرا بھلا کہنے لگی۔نند انتہائی دْکھی ہوئی اور انار چپکے سے باروچی خا نے میں رکھ دئیے۔ خاوند سے معذرت طلب کی کہ وہ انار نہیں لا سکی۔خدا کی کرنی دیکھ لیجئے۔
کہتے ہیں جس گھر سے بیٹی دْکھی جاتی ہے۔ وہاں برکت نہیں رہتی۔اس گھر میں بھی ایسا ہی ہوا۔اور انار جو پھل کے بوجھ سے جھک جاتا تھا اگلے برس اْس نے نہ صرف پھل دینے سے انکار کر دیا۔بلکہ درخت کی جڑوں میں ایسے کیڑے پڑ گئے جو زمین میں پھیلنا شروع ہو گئے۔
کیڑوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد بہت خوفناک منظر پیش کرنے لگی اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ درخت کو جڑ سے اْکھاڑ کر پھینک دیا گیا اور اس جگہ بھاری مقدار میں کیمیکل ڈالا گیا، تا کہ کیڑے ختم ہو جائیں۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ایک مرتبہ وہی بیٹی اِنکے گھر واپس آئی اور درخت کو یاد کر کے رونے لگی۔اس نے درخت کی جگہ اپنا ہاتھ رکھا اور ماں کو یاد کیا، اچانک اسکی نظر ایک ننھی سی جڑ پر پڑی۔ اس نے اسے اکھاڑ کر مٹھی میں بند کر لیا اور گھر چلی گئی۔گھر جاتے ہی وہ جڑ زمین میں لگا دی اورخدا کی قدرت وہ جڑ طاقت پکڑنے لگی۔صرف دوسال بعد ہی وہ جڑ تناور درخت بن گیا۔
دیکھنے والے محوِ حیرت تھے کہ تین سالہ درخت اب پھل دینے لگا۔چند سالوں میں یہ بالکل ویسا ہی درخت بن چکا تھا جسے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا تھا۔اب اس درخت کا پھل پورے خاندان میں برابر تقسیم کیا جاتا۔یہ ایسا جادوئی درخت بن چکا تھا کہ سارا سال سرسبز رہتا اور اسکا پھل ہر گھر میں کھایا جاتا۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بانٹ کے کھانے میں ہی برکت ہوتی ہے۔