کشمیری دروازہ
کشمیری دروازہ، پاکستان کے صوبہ پنجاب میں لاہور کے مقام پر واقع ہے۔ یہ مغل دور حکومت میں تعمیر کیا گیا اور یہ اندرون شہر کے راستوں پر تعمیر شدہ تیرہ دروازوں میں سے ایک ہے۔ لاہور کا قدیم کشمیری بازار ادھر واقع ہے۔ مشہور سنہری مسجد بھی یہاں واقع ہے۔ اس دروازے کا رخ کشمیر کی طرف ہے اس وجہ سے کشمیری دروازہ کہلا تا ہے اس کے باہر سے دریائے راوی گذرتا تھا۔
ایک کشمیری گیٹ، دہلی میں واقع ہے اور یہ تاریخی فصیل بند شہر کا شمالی دروازہ بھی ہے۔ اس کی تعمیر مغلیہ سلطنت کے بادشاہ شاہ جہاں نے کروائی تھی۔ اس کا نام کشمیری گیٹ رکھا گیا کیونکہ یہاں سے کشمیر کے لیے سڑک نکلتی تھی۔اب پرانی دہلی میں واقع اس دروازہ کے آس پاس کا علاقہ بھی کشمیری گیٹ کہلاتا ہے اور یہاں ایک بین الاقوامی بس اڈا بھی ہے۔ اس کے مضافات میں لال قلعہ اور دہلی ریلوے اسٹیشن بھی ہیں۔
کشمیری گیٹ پرانی دہلی کے شمالی علاقہ میں واقع ہے اور چونکہ دہلی سے کشمیر کی جانب ہے اسی لیے انگریزوں نے کشمیری گیٹ کا نام دیا۔ اس بالمقابل پرانی دہلی کے جنوب میں جو دروازی ہے اسے دہلی گیٹ کہا جاتا ہے۔ 1803ء میں جب برطانوی حکومت دہلی میں منتقل ہوئی تو انھوں نے پایا کہ پرانی دہلی اور شاہ جہاں آباد کی اکثر عمارتیں قابل مرمت ہیں جنہیں ایک عرصہ سے یوں ہی چھوڑدیا گیا ہے۔ مرہٹوں کے حملہ نے دہلی عمارتوں کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ کشمیری گیٹ کا علاقہ مغلوں کی رہائش اور شاہی لوگوں کا مسکن تھا۔ 1910ء کی دہائی میں حکومت ہند کے صحافیوں نے کشمیری گیٹ کے آس پاس اپنے گھر آباد کیے جن میں کثیر تعداد میں بنگالی نسل کے لوگ تھے۔ وہ لوگ درگا پوجا بڑے دھوم دھام سے ماتے تھے۔ دہلی درگا پوجا سمیتی کی جانب سے منعقد کردہ یہ تہوار دہلی کے قدیم ترین تہواروں میں سے ایک ہے جو اب بھی مانیا جاتا ہے۔
کشمیری گیٹ کی تفریحی مقامات میں سینٹ جیمس گرجا گھر بہت مشہور ہے جسے کولونیل جیمس اسکینر (1778ء-1841ء) کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ایک مذہبی عبادت گاہ ہے مگر اب دہلی کی وراثت کا حصہ ہے۔ اس کی تعمیر 1826ء تا 1836ء کی گئی تھی۔
کشمیری گیٹ میں واقع مہارانا پرتاپ انٹر اسٹیٹ بس ٹرمنس شہر کا قدیم ترین بس اڈا ہے جہاں سے ہریانہ، جموں و کشمیر، پنجاب، بھارت، ہماچل پردیش، راجستھان اور اتراکھنڈ کے لیے بسیں ملتی ہیں۔ اس کا افتتاح 1976ء میں ہوا تھا۔ اس کے مضافات میں مجنوں کا ٹیلہ ہے جو تبتی مہاجرین کی جائے پناہ ہے۔ یہاں ایک مجنوں کا ٹیلہ گرودوارہ بھی ہے جسے 1783ء میں بگھیل سنگھ نے بنایا تھا۔ اس کا نام ایک صوفی کے نام پر رکھا گیا ہے جنھوں نے سکھ گرو گرو نانک نے یہیں جولائی 1505ء میں ملاقات کی تھی۔
Daily Program
