چق

 ہیڈ بلوکی کے علاقہ میں سب سے زیادہ معاشی اہمیت کا حامل اور حکومت، مقامی آبادی اور کاروباری طبقات کی آمدن کا اہم ترین ذریعہ دریائی علاقے میں بے تحاشہ اگنے والاکاناہے۔ یہ دیہاتی علاقہ میں چھتوں کے طورپر، جلانے کیلئے اور شہروں میں آرائشی اشیاء کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس کی لمبائی15 فٹ ہوتی ہے۔”کانا“ کو مقامی زبان میں ”سرکی“ کہتے ہیں۔یہ ہر سال دسمبر کے آخری ہفتہ سے پہلے ماہِ فروری کے دوران تک کْل80 ایکڑ رقبہ سے کاٹا جاتا ہے۔ اس علاقے میں تقریباً 2 سو افراد کانا کی فصل کاٹتے ہیں۔ کٹائی سے قبل کانے کو آگ لگا دی جاتی ہے جس سے پرندوں کے گھروندے اور حشرات کو نا قابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔
 ہر بنڈل تقریباً 100 تا 125 روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ ان کانوں سے مختلف انواع کی ”چقیں“ (8 تا 12 فٹ چوڑی اور 15 فٹ لمبی) بُنی جاتی ہیں۔ ہر فرد اوسطاً 50 تا 80 مربع فٹ چک تیار کرکے 250 تا 400 روپے روزا نہ بھی کما لیتا ہے۔ کانے سے چقیں بنانے کے کاروبار میں 30 فیصد مرد اور 70 فیصد خواتین خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ کانا فروخت کرنے کی جگہ کو ”جھتہاری اڈہ“ کہا جاتا ہے۔ چار پانچ سال قبل گھروں کی سجاوٹ میں پردوں کی بجائے رنگ برنگی چقوں نے بطور فیشن جگہ لے لی ہے حالانکہ چقوں کا استعمال دیہاتوں اور مڈل کلاس میں ضرورت کے تحت ہوتا رہا ہے۔ چقوں کو عام طور پر سردی اور گرمی کی شدت سے بچاؤ کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔مگر اب اپر کلاس میں چقوں کے ڈیزائن میں جدت کی بدولت انہیں فیشن کے پیش نظر گھروں کی سجاوٹ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔جب رنگ برنگے دھاگوں سے بنی چقوں سے گھروں کو آراستہ کیا جاتا ہے تو اِس سے گھر کے ماحول میں لطافت پیدا ہوتی ہے۔بلو کی میں ماضی میں چق سرکنڈے اور بانس کے چپٹے تیلے سے بنائی جاتی تھیں۔اب چقیں جدت کی بدولت کمروں کی ڈیکوریشن اور ڈرائنگ رُوم کی زینت بن چکی ہیں اوراَب پردوں کی جگہ چقوں نے لے لی ہے۔اَب چقوں کی سجاوٹ کے لیے بلو کی کے نواحی دیہات میں رنگ برنگے دھاگے اور دھاتی تاریں استعمال کی جاتی ہیں۔چقوں کے ڈیزائن میں تانبے کی تار کا اضافہ کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے چق کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ 
سادہ اور فینسی چق کی قیمت مٹیریل کے لحاظ سے مربع فٹ کے حساب سے ہوتی ہے۔مثلا سرکنڈے کے تیلوں سی بنی چق ماضی میں تین چار روپے مربع فٹ ملتی تھیں جس کے ایک طرف نیلا کپڑا لگا ہو تا تھا۔مہنگائی کے اس دور میں اب یہی چق 20روپے مربع فٹ سے ملتی ہے۔جب کہ بلو کی سے تیارکردہ فینسی چق کی قیمت 50روپے مربع فٹ سے 300روپے مربع فٹ تک ہے۔یہاں کے کاریگر ایک دن میں دو چقیں تیار کر لیتے ہیں اِن کا ڈیزائن بھی خود تیار کر لیتے ہیں اور دھاگوں کے لیے رنگوں کا انتخاب بھی اپنی پسند سے کرتے ہیں۔اس کے علاوہ جو گاہک اپنی مرضی کے رنگوں کی چق تیار کرواتے ہیں وہ سجاوٹ کا مٹیریل بھی اپنی پسند سے لگواتے ہیں۔ایسی فینسی چقیں بہت مہنگی تیار ہوتی ہیں۔
اَب تو خواتین چقوں کی تیاری کے معاملے میں اپنے گھر کی دوسری آرائشی چیزوں کے رنگوں سے میچ کر کے دھاگوں کے رنگوں کا انتخاب کرتی ہیں۔وہ اپنی پسند کے کپڑوں سے چقوں کا باڈر لگواتی ہیں۔بلو کی میں ہاتھ سے تیار کر دہ چقیں زیادہ مضبوط اور نفیس ہوتی ہیں۔ان کی بناوٹ میں ہاتھ کی صفائی نظر آتی ہے۔بلو کی میں کام کرنے والے زیادہ تر کاریگر قصور کے نواحی دیہہ ”چُوڑی والا“ سے ہجرت کر کے ادھر آباد ہوئے ہیں۔یہ لوگ بلو کی کے علاوہ نارووال سے بھی مضبوط اور خوبصورت سرکنڈالا کر یہاں چقیں تیار کرتے ہیں۔اس سرکنڈے سے بنی عام چق پر سُوتی اور سادہ نیلے رنگ کا کپڑا لگا دیا جاتا ہے اور اِن کو واٹر پروف کپڑا بھی لگایا جاتا ہے۔یہ چقیں نہ صرف نواحی زمیندار گھرانوں اور فارم ہاؤسسزمیں جلوے دکھا رہی ہیں بلکہ بیرون ملک بھی بر آمد کی جاتی ہیں۔

Daily Program

Livesteam thumbnail