مٹی کا گھڑا
مٹی سے برتن بنانے کے فن کو ’کوزہ گری‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،کوزہ گری فارسی زبان کا لفظ ہے اور کوزہ گر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو مٹی کے ڈھیلے کو برتن کی شکل میں ڈھالتا ہے۔پنجاب میں اسے کمھار بھی کہا جاتا ہے۔مٹی کے برتن بنانے کا فن کم ازکم آٹھ دس ہزار سال پرانا ہے اوراس صنعت کودنیا کی سب سے قدیم صنعت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انسانی سمجھ کی ابتدا ء سے انسان مٹی کے برتن بناتا اور انھیں آگ میں پکا کر مضبوط کرتا رہا ہے۔کھدائی کے دوران جہاں کہیں بھی ما قبل تاریخی اشیاء برآمد ہوئیں ان میں مٹی کے برتن لازمی جز رہے ہیں۔ایشیاء میں سب سے پہلے مٹی سے برتن کا آغاز ’ایران‘میں ہوا۔چین میں اس فن کو عروج حاصل ہوا۔ اس فن نے اس جگہ ڈیرے ڈال لئے جس جگہ انسان سانس لیتا تھا۔
مٹی کے برتنوں کی تیاری اور ان کااستعمال روایت اور ثقافت کا حصہ ہیں مگر یہ روایت اور ثقافت اب دم توڑتی جارہی ہے۔ استعمال ہونے والے قدیمی برتن ناپید ہورہے ہیں اس سے نہ صرف ہماری ثقافت متاثر ہورہی ہے بلکہ آہستہ آہستہ ہماری نئی نسل ان چیزوں کے نام تک بھول رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مٹی کے برتن بنانے کی صنعت کے خاتمے کی وجہ سے ثقافت متاثرہونے کے ساتھ ہماری معیشت پر بھی برے اثرات پڑ رہے ہیں۔
موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے ٹھنڈے پانی کا استعمال بڑھ جاتا ہے، ایسے میں ٹھنڈے پانی کے حصول کے لیے الیکٹرک مشینیں اور فریج کا استعمال تو اپنی جگہ ہے لیکن آج بھی شہروں اور دیہاتوں میں مٹی کے گھڑوں اور صراحی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔گرمی کا موسم آتے ہی یہاں گھڑے تیار کرنے کے لیے خصوصی طور پر اہتمام کیا جا تا ہے اور آرڈر پر رنگ برنگے گھڑے اور صراحیاں تیار کی جاتی ہیں۔
گھڑے تیار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے اور ان کا گزر اوقات 200سے250 روپے کے حساب سے ایک گھڑا فروخت کر کے ہو ہی جاتا ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ گھڑے یا صراحی کے پانی کا استعمال نقصان دہ نہیں ہے، 50 روپے کے گھڑے سے انہیں فریج سے بھی ٹھنڈا پانی مل جاتا ہے، فریج کے پانی سے جہاں گلا خراب ہوتا ہے وہیں بجلی کی عدم فراہمی سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔شہروں میں آج بھی مٹی کے برتن، گھڑے اور صراحی فروخت کرنے والوں کی دکانوں پر رش ہوتا ہے۔
آج کے دورِ جدید میں بھی لوگ ٹھنڈا پانی پینے کے لیے گھڑے اور صراحی کا استعمال کرتے ہیں، مٹی کے گھڑے یا صراحی کے استعمال میں تو کمی یقیناً واقع ہوئی ہے لیکن گھڑے کے پانی کی افادیت سے آج بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔