قلم،دوات اور تختی

قلم،دوات اور تختی

انیس سو ستر کی دہائی تک جب ابھی بال پوائنٹ کا رواج عام نہیں ہوا تھا۔پبلک سکولوں میں قلم، دوات اور تختی لازم و ملزوم تھے۔ ہاں پرائیویٹ سکولوں میں کاپیوں پر قلم کی طرح کے تراشے پین سے اردو لکھائی جاتی تھی اور انگریزی کیلیے تو ایک خاص قسم کا پین ہوتا تھا اس ہولڈر کہتے تھے۔ اس پین کے اندر سیاہی بھرنے کی صلاحیت نہیں تھی اور یہ پین دوات میں ڈبو کر استعمال کیا جاتا تھا۔ ہم نے جب اپنی پرائمری تعلیم اپنے گاؤں سے شروع کی تو صبح والدہ اپنے ہاتھ کا سیا بستہ ہمارے گلے میں ڈالتیں، تختی ہمارے ہاتھ میں تھماتیں اور ہم سکول چلے جاتے۔
 تفریح سے پہلے ہمارا ہوم ورک یعنی تختی پر لکھی املا چیک کی جاتی اور تفریح کے دوران ہمیں تختیاں دھونے کا حکم مل جاتا۔ چھٹی کے آخر میں تختیوں پر املا لکھوائی جاتی اور اس کے بعد چھٹی ہونے تک پہاڑوں کی مشق جاری رہتی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ دوات بستے میں ہی الٹ جاتی اور والدہ کو دوبارہ بستہ دھونا پڑتا۔ اس وقت دواتیں یا تو نیلی سیاہی کی بوتل یا تبت کریم کی خالی بوتلوں سے بنائی جاتی تھیں۔ ان میں پہلے پانی میں بھگو کر کپڑے کا ٹکڑا ڈالا جاتا، اس کے بعد کالی سیاہی اور پھر مزید پانی۔ تھوڑی دیر بعد ہی دوات تیار ہو جاتی۔ قلم پہلے تو کانے سے بنائی جاتی تھی، پھر کانے کی ہی بنی بنائی قلمیں ملنے لگیں مگر ان کی نوک سنوارنا پڑتی تھی۔ اس کے بعد کلک نامی قلم بازار میں فروخت ہونے لگی جو کانے سے تھوڑی باریک ہوتی تھی۔ اس وقت ہر طالبعلم ایک سے زیادہ قلمیں اپنے پاس رکھا کرتا تھا کیونکہ یہ آسانی سے ٹوٹ جایا کرتی تھیں۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوا کرتا تھا کہ تختی دھو کر دھوپ میں رکھی جاتی اور کڑکتی دھوپ میں زیادہ دیر پڑی رہنے کی وجہ سے وہ دو ٹکڑے ہو جاتی۔
 اب یہ تختی کیا تھی ایک مستطیل نما لکڑی کا تختہ ہوتا تھا جس کے ایک کنارے پر پتنگ کی طرح کا دستہ ہوتا تھا۔ تختی کو گیلا کر کے اس پر مٹی یعنی گاچی کی طے چڑھا دی جاتی تا کہ لکھائی لکڑی کے اندر جذب نہ ہو جائے اور اسے دھونے میں آسانی رہے۔ پھر جب ہائی سکول میں پہنچے تو پین اور کاپی نے قلم اور تختی کی جگہ لے لی۔ دوات کی بجائے نیلی سیاہی استعمال ہونے لگی۔ ایگل کا پین اس وقت بہت مقبول تھا جس میں سیاہی بھر لی جاتی اور وہ ایک دو دن نکال جاتا۔ انگریزی کی پریکٹس کیلیے سیاہی کے بغیر والا دوسرا پین یعنی ہولڈر استعمال ہوتا جس کی نب کو دبا کر انگریزی لکھی جاتی تا کہ الفاظ کی موٹائی حاصل کی جاسکے۔  انگریزی لکھنے کیلیے جی اور اردو لکھنے کیلیے زیڈ نب استعمال ہوتی تھی۔ بعد میں طالبعلموں نے ایگل کے پین کی نب کاٹ کر زیڈ نب کا کام لینا شروع کرد دیا۔اور اب مختلف طرح کے بے شمار مہنگے مہنگے پین  مارکیٹ میں آ چکے ہیں۔

Daily Program

Livesteam thumbnail